ہماری بہادر عورتیں۔17

آج کی ہماری بہادر عورت کا نام ہے "مہری مشفق"

2131531
ہماری بہادر عورتیں۔17

آسیہ، استنبول تصویروں اور مجسموں کے عجائب گھر کی تعلیمی سیر میں بے دِلی سے شامل ہوئی تھی۔  جیسے ہی سیر شروع ہوئی اس نے اپنے گروپ سے الگ ہو کر ایک پُرسکون گوشے کی تلاش شروع کر دی۔ اس کے لازم و ملزوم ساتھی یعنی نوٹ بُک اور قلم  اس وقت بھی اس کے بیگ میں موجود تھے۔

عجائب گھر کے مختلف حصّوں کی سیر کے بعد جب وہ نسبتاً تنہا گوشے کے ایک بینچ کی طرف بڑھی تو اسے اپنے سامنے تقریباً ایک میٹر 60 سینٹی میٹر پیمائش کی آئل پینٹنگ کا احساس ہوا۔ آسیہ اس تصویر سے بہت متاثر ہوئی اور بیٹھ کر اسے بغور دیکھنا شروع کر دیا۔

تصویر میں سیاہ چادر میں لپٹی ایک عورت کو پینٹ کیا گیا تھا۔ اس کا سر بھی اسکارف سے ڈھکا ہوا تھا لیکن گھنگھریالے بالوں کے کچھ گُچھے دِکھائی دے رہے تھے۔ اسی طرح کان کی لوئیں اور سُرخ بالوں کی  کچھ  لٹیں بھی  چادر سے باہر تھیں، ایسے جیسے انہیں شعوری طور پر باہر رکھا گیا ہو۔ عورت گردن کو قدرے ایک طرف جھُکائے کہیں دور نگاہیں جمائے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ خاص طور پر اس کی لمبی گردن اور سفید مرمریں جلد دیکھنے والی کی مرکزِ توجہ بن رہی تھی۔ تصویر  کے عمومی رنگ گہرے اور سیاہ تھے لیکن ان کے درمیان عورت کی سفید رنگت اور سُرخ بال تصویر  کے بھاری پن کو روشن کر رہے تھے۔ تصویر میں رواں اسکیچ اور رواں برش اسٹروک تکنیک استعمال کی گئی تھی۔

تصویر کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد آسیہ نے ہیڈ فون لگایا اور نوٹ بُک نکالی۔ ابھی وہ کچھ لکھنے ہی والی تھی کہ اس نے ایک عورت کو اپنے پاس بیٹھتے اور اس سے مخاطب ہوتے دیکھا۔

اس نے حیرت سے دِل ہی دِل میں کہا " اللہ اللہ یہ عورت کب ہال میں آئی اور میرے پاس آ بیٹھی؟"

عورت نے کہا " اسلام علیکم بیٹی، اگر تمہیں بے آرام کیا ہے تو معافی چاہتی ہوں لیکن یہ جو تصویر تم دیکھ رہی ہو اس کی مصّورہ مہری مشفق ہے۔ مہری مشفق، ترکیہ  میں عصری مصّوری کا آغاز کرنے والی، پہلی مصّورہ  ہے۔

 

مہری 1886 میں استنبول میں پیدا ہوئی۔ وہ ایک معتبر خاندان کی اولاد تھی۔ اس  کے والد 'ڈاکٹر چرکز احمد راسم پاشا' کا شمار سلطنت عثمانیہ کے کامیاب ترین ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ یوں تو مہری نے یورپ میں تعلیم حاصل کی لیکن اس کا زیادہ رجحان مصّوری کی طرف تھا۔

ایک دن مہری نے اپنی بنائی ہوئی تصویر سلطان عبدالحمید دوئم کو تحفے میں پیش کی۔ سلطان کو یہ تصویر بہت پسند آئی اور اس نے مہری مشفق کو شاہی مصّور 'زونارو' کی شاگردی میں دے دیا۔

اس طرح اس نوجوان لڑکی نے مصوّری  کے راستے پر پہلا قدم رکھا۔اس دور میں کسی ترک عورت کا اس طرح تعلیم حاصل کرنا ابھی اتنا آسان نہیں تھا۔

 

1906 سے اس نے، حاصل کردہ تعلیم کے طفیل، پہلے روم اور پھر پیرس میں بنائی ہوئی تصاویر فروخت کر کے پیسہ کمانا شروع کر دیا۔ یہاں قیام کے دوران اس کی ملاقات مشفق سلامی  بے سے ہوئی  اور جلد ہی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں تبدیل ہو گئی۔ اس طرح وہ فن کی دنیا میں "مہری مشفق خانم" کے نام سے پہچانی جانے لگی۔

 

1912 میں وہ استنبول واپس لوٹی اور  استنبول دارالمعلّمات  یعنی لڑکیوں کے اسکول میں تدریس شروع کر دی۔ 1914 میں اس نےاستنبول میں ' اناس صناعی نفیس' یعنی لڑکیوں کا پہلا فنونِ لطفیہ اسکول  کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں سے تعلیم یافتہ متعدد مصورات  کی تربیت میں بھی اس کی محنتوں کا بڑا دخل ہے۔ اس کی استادی میں تربیت پانے والی مصورات میں نازلی اجوت، گزین دران اور فخرالنساءزید جیسے نام شامل ہیں۔ اس نے اپنی شاگردوں کو، کھُلی فضاء میں قدرتی مناظر اور زندہ ماڈلوں  کے ساتھ تصویر کشی کرنے اور قدیم مجسموں کو مدّنظر رکھنے کی طرف راغب کیا ۔

 

معروف شاعر توفیق فکرت ان کے عزیز دوستوں میں سے ایک تھے ۔ یہ دوستی اتنی گہری تھی کہ مہرہ مشفق نے ان کی وفات پر ان کے چہرے کا سانچہ لے کر ان کا مجسمہ بنایا۔ اس طرح انہوں نے ترکیہ میں پہلا ماسک مجسمہ بنایا۔

 

1922 میں فتح ازمیر کے بعد اس نے مصطفیٰ کمال اتاترک کا مارشل یونیفارم میں 3 میٹر بلند مجسمہ بنایا اور چانقایہ پیلس میں اتاترک کو یہ مجسمہ پیش کیا۔ یہ مجسمہ اعلانِ جمہوریت کے بعد کسی مصوّرہ کا بنایا ہوا اتاترک کا پہلا مجسمہ تھا۔

 

مہری مشفق دوبارہ روم  منتقل ہو گئی  اور یہیں سے مصوری و مجسمہ سازی کرتی رہی۔ اپنی پورٹریٹ کے لئے اس نے زیادہ ترک معروف شخصیات کا انتخاب کیا۔ 1927 میں وہ مستقل  طور پر نیویارک میں منتقل ہو گئی اور مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتی رہی۔ 1954 میں نیویارک میں وفات پا گئی۔

 

آسیہ اس مُبدی  مصورہ  کی زندگی اور کاوشوں کو حیرت اور انہماک سے سُن رہی تھی کہ عورت نے پُر جوش آواز میں کہا کہ کیا ہی اچھا ہوا کہ مہری مشفق نے یہ راستہ چُنا اور عورتوں کے لئے ایک روز ن وا کیا۔ آسیہ نے پہلی دفعہ عورت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تو ایک حیرت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عورت حیرت انگیز شکل میں پورٹریٹ والی سُرخ بالوں وال؛ی عورت سے مشابہہ تھی۔  اُس نے عورت سے اس کا نام پوچھا اسی لمحے اس کے ہاتھ سے قلم چُھوٹ کر زمین پر جا گِرا۔ قلم اٹھانے کے بعد آسیہ سیدھی ہوئی تو  ہال میں اس کے اور اس پورٹریٹ کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ تیزی سے پورٹریٹ کی طرف بڑھی۔ پورٹریٹ کے نیچے آٹو پورٹریٹ  پڑھ کر اُس کی حیرت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ خود کلامی میں بُڑبُڑاتے   ہوئے کہنے لگی "اوہ ۔۔۔ کیا مجھ سے باتیں کرنے والی خود مہری مشفق تھی؟۔۔۔ نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں اپنے گروپ کو ڈھونڈوں تو اچھا ہو گا"۔ ہال سے نکلنے سے پہلے وہ ایک دفعہ پھر پورٹریٹ کی طرف پلٹی اور کہا " بہت بہت شکریہ مہری خانم۔ مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے"۔



متعللقہ خبریں