ہماری بہادر عورتیں۔18

آج کی ہماری بہادر عورت ہے ترکیہ کی پہلی پولیس افسر شریفہ فریحہ سانرک۔۔۔

2133722
ہماری بہادر عورتیں۔18

مرد کو بہت بیزاری ہو رہی تھی۔  اسے بلا وجہ تحقیقی  کام بطور ہوم ورک دے دیا گیا تھا۔ کوفت میں وہ بار بار  اپنی استانی  کی بات کو دُہرا رہا اور غصّے میں بُڑبُڑا رہا تھا "ہُنہ۔۔۔ کیا ہے جناب۔۔۔ میں نے اپنی ہم جماعت لڑکیوں کی ہی نہیں سب عورتوں کی حق تلفی کی ہے"۔ یہ بات سمجھانے کے لئے کہ تاریخ میں عورتوں نے کیا کیا کارنامے کئے ہیں اور عورتیں  کیا کچھ کرنے پر قادر ہیں استانی نے اسے  بطور ہوم ورک شریفہ  فریحہ سانرک  نامی پیش رُو  عورت کے بارے میں تحقیق کرنے اور کلاس میں اس کی پریزنٹیشن دینے کا کام دیا تھا۔ اس نے دوبارہ جھنجھلاہٹ میں کہا " بلا وجہ میں نے اپنے سر بَلا لے لی ہے"۔ لیکن اب اس کوفت کا کوئی فائدہ نہیں تھا لہٰذا اس نے اپنا کمپیوٹر کھولا اور  بے دِلی سے خود کلامی کی" آئیں جی دیکھیں کون ہے یہ فریحہ سانرک"۔

 

شریفہ فریحہ سانرک جمہوریہ ترکیہ کے اعلان کے سال یعنی 1923 میں ازمیر میں پیدا ہوئی۔اگرچہ اعلانِ جمہوریت کے ساتھ عورتوں کو بہت سے حقوق دیئے گئے لیکن ابھی انسانوں کی سوچ تبدیل نہیں ہوئی تھی۔یوں تو  ہر گزرتے دن کے ساتھ مختلف پیشوں میں عورتوں نے فعال حصّہ لینا شروع کر دیا تھا لیکن عمومی روشن خیالی کا دَور ابھی دُور دِکھائی دے رہا تھا۔ بالکل اسی دور میں فریحہ نے اپنا نام سنہرے حروف میں تاریخ کے صفحات پر رقم کر دیا۔

 

1945 میں اس نے انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاست میں داخلہ لیا۔4 سال تک وہ اپنی کلاس کی واحد طالبہ رہی۔1951 میں اس نے گورنری کا امتحان پاس کیا لیکن اس کی کہیں تعیناتی نہیں کی گئی اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی تھی کہ کاش تم عورت نہ ہوتیں۔

 

گورنری کی طرف  سے مایوس ہونے کے بعد اس نے پولیس ڈائریکٹر کے لئے درخواست دی اور بحیثیت نائب پولیس ڈائریکٹر کے کام شروع کر دیا۔

 

1953 میں پولیس ڈائریکٹر کے عہدے  تک ترقی کرنے کے باوجود عورت ہونے کی وجہ سے اسے ترقی   نہیں دی  گئی۔ اگرچہ اسے ایک دفعہ پھر عورت ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اس معاملے کو عدالت میں لے گئی۔ عدالت نے فریحہ کے حق میں فیصلہ سُنایا اور اس طرح اس نے ترکیہ کی پہلی خاتون پولیس ڈائریکٹر  کی حیثیت سے  فرائض کا آغاز کر دیا۔

 

1974 میں ریٹائر ہونے کے باوجود وہ فارغ نہیں بیٹھی اور سالوں تک پولیس اکیڈمی میں لیکچر دیتی رہی۔ 2010 میں قائدانہ روح والی یہ عورت اس دُنیا سے کُوچ کر گئی۔

 

فریحہ کے بعد اس کی دو بیٹیوں میں سے نوردان جانجہ   بھی اپنی ماں کے نقش قدم پر چل کر ترکیہ کی دوسری پولیس ڈائریکٹر بن گئی۔ یہی نہیں اس نے "ترکیہ کی پہلی خاتون جوڈو ایمپائر بن کر " اپنی ماں کی طرح پیشرو عورت کا عنوان اپنے نام کر لیا۔

 

واہ  جی واہ ۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔  ہوم ورک ختم کرنے کے بات مرد نے خود کو فریحہ کی جگہ لا کر حالات کا اور اس کی جدوجہد کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔  کس قدر حق تلفی اور ناانصافی ہے ۔۔۔ تم پڑھو کامیابی حاصل کرو لیکن صرف عورت ہونے کی وجہ سے تمہیں تمہارے حق سے محروم رکھا جائے۔ پھر تم اپنے عہدے میں ترقی کرو لیکن دوبارہ عورت ہونے کی وجہ سے تمہیں ترقی ناں دی جائے۔ کس قدر  ناانصافی ہے۔ لیکن آفرین ہے فریحہ پر کہ اس نے کسی بھی مرحلے میں ہمّت نہیں ہاری  اور ہمیشہ حق تلفی کے مقابل نہایت جرات مندی سے کوشش کرتی رہی۔

 

اب اسے سمجھ   آ گئی تھی کہ استانی کیوں اس قدر خفا ہوئی ہے۔ اصل میں اب اُسے اپنی غلطی کا احساس ہی نہیں ہوا تھا بلکہ یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ بغیر جانے بُوجھے  کوئی حُکم لگانا کس قدر نامناسب حرکت ہے۔

 

جی تو آج کی ہماری بہادر عورت تھی ترکیہ کی پہلی پولیس افسر شریفہ فریحہ سانرک۔۔۔

 



متعللقہ خبریں