چشمہ شفاء ۔ 01

گلے کے درد، نزلہ زکام اور ٹانسلز کا گھریلو علاج

1700662
چشمہ شفاء ۔ 01

آج ہم جس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں وہ " گلے کا درد " ہے۔

  • ­گلے کے درد کا اہم ترین  گھریلو علاج  لیموں کے پانی سے غرارے کرنا ہے۔

لیموں کے پانی سے غرارے کرنے کا طریقہ کچھ اس طرح ہے۔ نیم گرم پانی میں آدھے یا پورے  لیموں کا رس  نچوڑ کر لیموں کا پانی تیار کیا جائے اور اس پانی سے دن میں 3 یا پھر 4 مرتبہ غرارے کئے جائیں۔

  • گلے کے درد کا ایک اور گھریلو ٹوٹکا یہ ہے کہ کسی پٹّی، رومال یا پھر تولیے کو سیب کے آرگانک سِرکے میں بھگو کر گلے کے گرد لپیٹ لیا جائے۔ یہ طریقہ حقیقتاً بہت مفید ہے ۔ گلے کے ساتھ ساتھ مریض کے تلووں پر بھی سِرکے میں بھیگی پٹی رکھی جاتی ہے۔ یہ پٹی  گرم ہونے تک تلووں پر  رہنے دی جائے۔ ٹھنڈک ختم ہونے پر پٹّی کو ہٹا کر پاوں خشک کر کے ڈھانپ لئے جائیں۔
  • گلے کی تکلیف سے نجات کا ایک اور دیسی طریقہ  بھی  گھریلو لوازمات سے آسانی سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ہلدی پاوڈر، ادرک پاوڈر اور بہت تھوڑی مقدار میں کالی مرچ  کا پاوڈر ایک کھانے کے چمچ زیتون کے تیل میں ملا کر اسے پینا  خاص طور پر گلے کے درد، نزلے زکام اور ٹانسلز کے لئے  بہترین اینٹی بائیٹوک  اور چشمہ  شفاء ہے۔
  • گلے کے درد اور خاص طور پر گلے میں زخموں کے گھریلو علاج میں تازہ  چقندر کے پانی سے غرارے کرنا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔
  • نمکین پانی سے غرارے بھی گلے کی تکلیف کا مانا ہوا علاج ہے۔ ٹھنڈے پانی میں ایک چائے کا چمچ نمک ملا کر اس سے غرارے کرنا آرام کا سبب بنتا ہے۔ یہ طریقہ علاج بالغ افراد کے لئے زیادہ موزوں ہے۔
  • ساج کے پتّے گلے کی تکالیف کے علاج میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انہیں فلو، نزلہ زکام، ٹانسلز اور گلے کی سوجن سے نجات کے لئے پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پتّے مسوڑوں کی سوجن  اور مسوڑوں میں پیپ کے علاج میں بھی نہایت درجے مفید ہیں۔ ان پتّوں کے پانی سے غرارے بھی کئے جا سکتے ہیں اور ان پتّوں کی چائے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔

جب ہم ساج کے پتّوں کا ذکر کرتے ہیں تو تاریخ میں اس کے بارے میں ایک کہاوت سے سامنا ہوتا ہے ۔13 ویں صدی سے منسوب یہکہاوت کچھ یوں ہے کہ " جس نے گھر میں ساج کا پودا لگا لیا اسے مرنے کی کیا ضرورت ہے"۔ ساج کے پتّوں کا نباتاتی نام سالویا ہے۔لاطینی زبان میں اسے سالویرےکہا جاتا ہے جس کے معنیٰ تحفظکرنااور بچانا کے ہیں۔

مصری تہذیب میں ان پتّوں کو قوت تولید میں اضافے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور قدیم عہدِ یونان اور عہدِ روما میں ان پتّوں کو گوشت کو طویل مدت تک محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کیاجاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان پتّوں کے دھوئیں سے گھروں کو بھی جراثیم سے پاک کیا جاتا تھا۔

لیکن قدیم دور سے اس کے استعمال کا جو طریقہ اورجو اعتقاد موجودہ دور تک پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ اسے ابال کر چائے کی شکل میں استعمال کرنے والا آسانی سے بیمار نہیں پڑتا۔

روز مرّہ زندگی میں بھی گلے کی تمام بیماریوں میں اس چاے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ساج کے پتّوں کے فوائد بس گلے کے امراض تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ ڈپریشن، یاداشت میں کمی، کینسر اور امراضِ دل میں بھی ایک ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ اسےازمنہ وسطیٰ میں وباء کے خلاف قوت میں اضافہ کے لئے استعمال کئے جانے والے "چار چورسرکے" میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

آپ کہیں گے کہ یہ "چار چور سرکہ" کیا ہے۔ تو جناب آپ کو بتاتے چلیں کہ ساج کے پتّوں سے تیار ہونے والے اس سرکے کا نام چار چور سرکہ ایک تاریخی واقعے کی وجہ سے پڑا۔ سینکڑوں سالوں سے علاج کے لئے استعمال کئے جانے والے اس سرکے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔

روایت کے مطابق 14 ویں صدی میں مارسیلیا شہر  ،جو اس وقت فرانس کا حصہ ہے، میں ایک وباء پھوٹ نکلی۔ یہ وباء پورے یورپ میں پھیل گئی اور 25 ملین انسانوں کی موت کا سبب بنی۔وباء کے دوران چار چور ایسے تھے جو گھروں اور دکانوں کو لوٹتے تھے لیکن وباء کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن یہ چور رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں اور ان کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔ روایت کے مطابق اس کے ساتھ یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ اگر چور وباء سے بچے رہنے کا راز بتا دیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ اس پر چور اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے تیار کردہ ایک سرکے سے ہاتھ دھوتے اور غرارے کرتے ہیں۔ چوروں کو گلی کوچوں میں عوام کو یہ سرکہ بنانے کا طریقہ سکھانے کی شرط پر رہا کر دیا جاتا ہے۔

تب سے لے کر اب تک سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود اس چار چور سرکے کو متعدد بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سرکہ خاص طور پر  نزلے، زکام، گلے کی خراش، سوجن، کووِڈ انفیکشن، ٹانسلز اور آواز کے بیٹھنے جیسے امراض میں نہایت مفید دیسی علاج ہے اور قدیم اناطولیہ میں عام استعمال کیا جاتا ہے۔



متعللقہ خبریں