تجزیہ 78

شمالی عراق میں پشمرگے قوتوں اور دہشت گرد تنظیم PKK کیونکر جنگی میدان میں اتر آئی ہیں؟ ماہر کے قلم سے

1664751
تجزیہ 78

ترکی  کی شمالی عراق میں تیزی پکڑنے والی عسکری کاروائیوں کے بعد چھڑنے والی پشمرگے۔PKK جھڑپیں گاہے بگاہے وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں تو فریقین کے مابین   طاقت کی جنگ نے شام کو بھی اپنے اندر کھینچنا شروع کر دیا ہے۔  پی وائے ڈی/ وائے پی جی کے نام نہاد لیڈروں کی جانب سے  کردی ڈیموکریٹک پارٹی  کو ہدف بنانے والے بیانات  کے ساتھ ساتھ کردی ڈیموکریٹک  پارٹی  کے سربراہان نے بھی  پی وائے ڈی/وائے پی جی  کے دہشت گرد تنظیم  PKK کےشام میں  بازو ہونے پر زور دیتے ہوئے  ان بیانات کا جواب دیا ہے۔ اب فش ہابور / سیمالکے  سرحدی چوکی  کو آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے،  پی وائے ڈی/وائے پی جی   کا عربیل نمائندہ جیل میں  بھیج دیا گیا ہے تو   24K-کےشام میں  دہشت گرد تنظیم PKK کے علاقے میں دفتر کو بند کر دیا گیاہے۔

سیتا خارجہ پالیسی تحقیق دان جان اجون  کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ  ۔۔۔

ترکی کی دہشت گرد تنظیم PKK کے خلاف  شمالی عراق میں وسیع پیمانے کی فوجی کاروائیاں جاری  ہیں تو قومی خفیہ سروس کے  آپریشنز کی بدولت دہشت گرد تنظیم کے نام نہاد سرغنوں  اور فیلڈ کمانڈروں کو بے بس کرنے کاعمل بھی جاری ہے۔  ترکی کے تیزی آنے والے عسکری  دباؤ  میں پشمرگے قوتوں کی میدان میں لاجسٹک  تعاون  کی شمولیت  سے دہشت گرد تنظیم   تاحال اپنے  زیر ِکنٹرول ہونے والے علاقوں میں تنہائی کی شکار بنتی جا رہی ، علاوہ ازیں  اس کی حکمت عملی کی راہیں بھی ایک ایک کر کے بند ہونے لگی ہیں۔ ملکی بقا کے لیے خطرہ ہونے کی سوچ کے حاوی ہونے  والی تنظیم  اب افراتفری کے ماحول میں بلا کنٹرول کے  پشمرگے قوتوں پر حملے کر رہی ہے۔ ایک جانب سے کے سی کے  لیڈر کردی ڈیموکریٹک پارٹی کو ہدف بنانے والے سخت بیانات جاری کر رہے ہیں تو  PKK سے تعاون کرنے والے کردی  عوام اور متعلقہ شہری تنظیمیں او ر سیاسی عناصر   بعض کاروائیاں کرتے ہوئے کردی ڈیموکریٹک پارٹی  پر دباؤ ڈالنے والے ماحول کو پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔مزید برآں خطہ یورپ میں منظم ہونے والے عناصر علاقے کو آتے ہوئے PKK کے لیے زندھ ڈھال بننے کی جدوجہد میں ہیں تا ہم عراقی کردی علاقائی انتظامیہ ان عناصر کو علاقے سے  دور ہٹاتے ہوئے ان کی کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔

کردی ڈیموکریٹ پارٹی اور دہشت گرد تنظیم PKK کے درمیان جاری طاقت کی اس جنگ کا شام کو بھی اس  آگ میں دھکیلنا ایک متوقع صورتحال ہے۔ اس سے قبل وائے پی جی  کے ایک گروہ  نے سرحدی پٹی پر پشمرگوں کی چیک پوسٹ پر حملہ  کرتے ہوئے اس مقام پر کچھ مدت کے لیے قبضہ جما لیا  تھا ۔ کردی ڈیموکریٹک سے قربت رکھنے والی کردی قومی کونسل کے  دفاتر  کو نذرِ آتش کیا گیا ،  اس کے پیچھے PKK کے یوتھ ڈھانچے کے کار فرما ہونے  کا تعین ہوا۔ تا ہم  اب جھڑپوں اور طاقت کی جنگ کے بام عروج تک پہنچنے والے ایک دور میں  براہ راست دو علاقوں کو منسلک کرنے والی فش ہابور  سرحدی چوکی بند کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں     پی وائے ڈی/وائے پی جی   کے عراقی کردی علاقائی انتظامیہ کے ماتحت نمائندے ہونے والی شخصیات کو عربیل میں حراست میں لیتے ہوئے حوالات میں بند کر دیا گیا ہے۔ پی وائے ڈی/وائے پی جی   نے اس کے جواب میں عراقی کردی علاقائی انتظامیہ کے میڈیا  عنصر کے۔24 کے دفاتر کو بند  کرتے ہوئے  اس کی خبر رسانی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔  علاوہ ازیں قامشلی ، عین العرب علاقوں میں دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی حمایت میں اور کردی ڈیموکریٹک پارٹی کی مذمت کرنےو الے  کئی ایک محدود سطح کے مظاہرے   منظم کیے گیے۔

پشمرگے قوتوں  اور دہشت گرد تنظیم  PKK  کے  مابین جھڑپوں اور طاقت کی جنگ میں  شام  کی پی وائے ڈی/ وائے پی جی  کی بھی شمولیت   کے عمل نے   واضح طور پر  اس ڈھانچے کے  PKK کی شام میں  دوام  ہونے  کی حقیقت کو مضبوطی دی ہے تو  عراقی کردی علاقائی انتظامیہ اور کردی ڈیموکریٹک  کو   دہشت گرد تنظیم PKK کے خلاف جنگ کو  شام کے میدان  تک پھیلانے  کی ضرورت کا ایک بار پھر مشاہدہ کیا ہے۔کردی ڈیموکریٹک پارٹی   کے سربراہان کو  عراقی کردی علاقائی انتظامیہ کے اندر پیدا ہونے والے طاقت کے خل سے استفادہ کرتے ہوئے سرطان کی طرح علاقے میں  سرایت کرنے والی دہشت گرد تنظیم  کے خلاف جنگ کے لیے ترک مسلح افواج  کی فوجی کاروائیوں  اور  تنظیم پر دباؤ  کو ایک موقع کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔  کردی ڈیموکریٹک پارٹی اور  پشمرگے  قوتیں کے ہاتھ میں  اب،  کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ طریقے سے  براہ راست  عسکری آپریشنز میں شرکت کرتے  ہوئے  ترکی سے تعاون  کرنے اور اس دہشت گرد تنظیم سے نجات پانے کے  لیے ایک تاریخی موقع   موجود ہے۔ اگر   انہوں نے اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھا یا  تو پھر یہ  دہشت گرد تنظیم    کا  میدان ِ جنگ میں سامنا کرنے اور اس کی قیمت چکانے کے عمل کو جاری رکھیں  گے۔



متعللقہ خبریں