لب آب سے آئی تہذیب

اناطولیہ کے گرم پانی کے صحت بخش چشمے

1571520
لب آب سے آئی تہذیب

 میکین کے فرماں روا آگیممنون  نے  دس سال جاری جنگ کے نتیجے میں ٹروئے پر قبضہ کر تے ہوئے شہر کو  آگ لگا دیتا ہے مگر پھر بھی اس کی بھڑاس نہیں نکلتی اور وہ وہاں بسی  قوموں  س ےلڑتا رہتا ہے۔ اس کی فوج کی کثیر تعداد زخمی اور بیمار  ہو جاتی ہے۔ وہ ایک مستبقل شناس کی بات سنتا ہے اور اپنی فوج کو سمیرنا یعنی ازمیر کے قریب گرم پانی کے چشموں  تک لاتا ہے جہاں کے شفا بخش پانی اور کیچڑ سے ان فوجیوں کے زخم بھرتے ہیں اور وہ ٹھیک ہو جا تے ہیں۔

 جنگ ٹروئے کے مشہو رکمانڈر آگا ممنون کے فوجی  ٹھیک ہوئے یا نہیں   اس روایت  کا تو پتہ نہیں البتہ جدجد طب کے بانی ہیپوکرات کے نسخوں ، ماہر جغرافیہ اسٹرابون کی کتب  اور قدیم دور کے  مصنف  ہومیروس  کی داستانوں میں اگاممنون  کے ان گرم چشموں کا ذکر  ملتا ہے۔ یہ چشمے بار سو سال سے لوگوں کو شفا بخش پانی مہیا کر رہے ہیں جو کہ دور حاضر میں بالچووا میں موجود ہیں۔
اناطولیہ کے  علاقے میں شفا بخش پانیوں کو صحت یابی کے لیے استعمال کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے آج کے اس پروگرام میں ہم تھرمل  چشموں کا ذکر  کریں گے۔

 طبی  ترقی  تک  پرانی تہذیبوں سے انسانوں نے امراض سے بچاو کے نت نئے طریقے اپنائے جن میں  گرم پانی  سے نہانے اور اسے پینے کا رواج موجود رہا ۔ اناطولیہ  ان گرم پانی کے چشموں کا مرکز  رہا اور ہزاروں سال تک شفا تقسیم کرتا رہا ۔
 ترکی  گرم پانی کے ان چشموں کے لحاظ سے کافی خود کفیل ہے ترکی کا شمار دنیا کے پانچ اہم ممالک میں ہوتا ہے جہاں  تیرہ سو کے قریب چشمے موجود ہیں  ۔ ترکی کے پر کونے میں موجون ان چشموں کے پانی کا درجہ حرارت مختلف ہے جن کو مختلف امراض کےلیے شفا یاب بھی مانا جاتا ہے اور ان کی خصوصیات بھی قدرے  جدا ہیں۔ جدید طب میں بھی بعض امراض  کے تدارک میں یہ چشمے معاون بنتےہیں۔ ترکی میں  گرم پانی کے ان چشموں کو ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ بھی حاصل ہے۔

قدیم دور میں طبی سائنس یا فلسفے میں مشغول مصنفین نے تھرمل چشموں کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے،قدرتی وسائل  کے ان معجزات کو  باعث توجہ قرار دیا، انہوں نے ان چشموں کو ان کے ذائقوں اور تاثیرات کے حوالےسے الگ الگ نام دیئے۔ انسانوں کے  جلدی، جسمانی اور دیگر امراض کے لیے ان  پانیوں کا استعمال کیا اور آج تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن کیا معلوم ہے کہ یہ چشمے کس طرح سے پھوٹتے ہیں۔ پانی کے یہ زیر زمین چشمے معدنی حرارت کی وجہ سے گرم ہوتے ہیں جن کا عمومی درجہ حرارت بیس ڈگری سینی گریڈ تک ہوتا ہے لیکن ہر گرم پانی  تھرمل خاصیت کا حامل نہیں ہو سکتا  اس کےلیے ان میں بعض گیسوں،نمکیات اور تابکاری مواد کا شامل ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اناطولیہ میں تھرمل پانی کے ان چشموں کی کثرت کوئی حیرت کی بات نہیں مثال کے طور پر انقرہ کے قصبوں عیاش اور حائمانہ کے چشموں  کا تعلق  حطیطی  دور سے جو کہ چار ہزار سالوں سے شفا کا سبب بن رہا ہے۔ افیون قارا حصار کے تھرمل چشمے فریگی دور سے قابل استعمال  ہیں۔ حطیطی قوم پانی سے متعلق  امور پر کافی  عبور رکھتی  تھی مگران پانیوں کی دریافت اور شفایابی کے عناصر کی بازیابی کس طرح سے کی گئی یہ جاننا ذرا مشکل کام ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کی  یہ دریافت آج تک ہمارے لیے وسیلہ  شفا بنی ہوئی  ہے۔

 تھرمل وسائل  سے حاصل شدہ پانیوں کو بلا معاوضہ  صفائی اور نہانے دھونے کےلیے استعمال کیا جاتا رہا لیکن  بعد میں ان پانیوں کے ذائقوں،خوشبووں اور  درجہ حرارت میں انفرادیت کی وجہ سے انسانوں نے ان پانیوں میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا۔ انہوں نے   چشموں کے اطراف کو  ڈھانپ دیا جس کے نتیجے میں یہ پانی تاریخ بھر صاف و تروق تازہ رہا۔ گرم پانی کے یہ چشمے ترجیح کے اعتبار سے  شفا یابی کا وسیلہ سمجھے جاتے تھے جن کے اطراف میں  فن معماری  میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی ہے مثلا  گرما حماموں کی معماری  تھرمل  چشموں کی معماری سے الگ تھی۔حماموں   کی بات کی جائے توان کے عین وسط میں تالاب ہوا کرتے تھے  جن میں بعض پائیدانوں پر قدم رکھتے ہی داخل ہواجاتا تھا۔قدم دور  کے حکیم اعظم ہیپوکرات  کا کہنا تھا کہ  قدرتی وسائل سے شفا کا حصول ضروری ہے جس میں پانی کی اہمیت مقدم ہے۔
اس دور میں ویسے ہی پانی  کو علاج کا طریقہ مانا جاتا تھا،قدیم چشموں میں حکیم کے مطابق مریضوں کو نہلایا جاتا تھا اور ان  کی مالش بھی کی جاتی تھی۔اس دور کے چشموں  کو کمر ،سینےاور سر درد  کے علاوہ  پٹھوں  ،امراض تنفس  اور جلدی امراض  سمیت   مثانے کی بیماری کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔
 اناطولیہ   میں علاج کےلیے جس  چشمے کا استعمال پہلے شروع کیا گیا  وہ الیا نوئے شہر میں تھا  جس کا گندھک ملا پانی پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ  گرم  تھا۔  یہ شہر موزائیک سےآراستہ دالانوں،  ساف ستھری گلیوں  اور اپنے ستونوں  اور چشموں کی وجہ سے مشہور تھا۔اس شہر کی بدولت ہمیں  یہاں کے تھرمل پانی اور اس کے استعمال کی  وجوہات کے بارے میں علم ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پانی سے سائیکو تھراپی،ہائیڈرو تھراپی اور عمل جراحی میں معاونت کا کام لیا گیا ۔ کھدائی کے دوران  یہاں سے بارہ ہزار آثار اور چار سو کے قریب طبی آلات بازیافت کیے گئے۔ یہ تاریخی شہر بد قسمتی سے آج یورتالنلی نامی بیراج کے پانی تلے  دب چکا ہے ۔
-    

 جیسا کے پروگرام کے آغاز میں بتایا کہ  آگاممنون یعنی بالچووا کے گرم پانی کے چشمے ازمیر شہر سے بارہ کلومیٹر دور ہیں جن  کے پانی کا درجہ حرارت باسٹھ سینٹی  گریڈ ہے اور جس میں  بائی کاربونیٹ،کلورین،اور سوڈئیم کی  وافر مقدار جوجود ہے۔یہ پانی   قابل مشروب ہے   جو کہ دماغی و دیگر جسمانی امراض میں اکسیر ثابت ہوتا ہے۔ اس پانی سے شفا یاب ہونے کے لیے  شمالی  یورپی ممالک سے خاص طور سے مریض آتے ہیں۔

 



متعللقہ خبریں