فرانس ترک اور مسلم طبقے کی مساجد اور انجمنوں کے تحفظ کو قطعی بنائے، ترک وزیر خارجہ

خطہ یورپ میں نسل پرستی اور اسلام مخالف    واقعات میں اضافہ ہم  سب کے لیے باعث تشویش ہے

1876256
فرانس ترک اور مسلم طبقے کی مساجد اور  انجمنوں کے تحفظ کو قطعی بنائے،  ترک وزیر خارجہ

وزیرِ خارجہ میولود چاوش اولو  کا کہنا ہے کہ ہم  فرانس میں ترک اور مسلم طبقے کی مساجد اور انجمنوں  کے دفاتر کے تحفظ کے لیے تمام تر لازمی تدابیر اختیار کیے جانے کی توقع کرتے ہیں۔

ترک وزیر نے انقرہ کے سرکاری دورے پر تشریف لانے والی  فرانسیسی ہم منصب  کیتھرین  کولانا سے   دفتر خارجہ  میں  ملاقات کے  بعد مشترکہ پریس کانفرس  کا اہتمام کیا۔

ترکیہ اور فرانس کے  درمیان سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں  تاریخی تعلقات استوار دو ممالک ہونے  کا ذکر کرنے والے جناب چاوش اولو نے  بتایا کہ  ہم نے  فرانسیسی ہم منصب سے مذاکرات میں  علاقائی و عالمی   چیلنجز کے  برخلاف  باہمی تعاون کو جاری رکھنے  پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری دیرینہ خواہش ہے کہ  فرانس میں مقیم ترک باشندے ترکیہ کے ساتھ روابط جاری ہونے  کے وقت  فرانسیسی  معاشرے  کے ساتھ بھی  بہترین طریقے سے ہم آہنگی قائم  کریں۔  فرانس  کی جانب سے  اس عمل کو سہل   بنانے  اور حوصلہ کن  اقدامات اٹھانا  اہمیت  کا حامل ہے۔

انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ فرانس ترک معاشرے   سے تعلق  رکھنے والے معاملات میں عقل سلیم سے کام   لینے   کا دامن  ہاتھ سے نہیں   چھوڑے گا،  بڑے افسوس  کی بات ہے کہ  خطہ یورپ میں نسل پرستی اور اسلام مخالف    واقعات میں اضافہ ہم  سب کے لیے باعث تشویش ہے۔  نسل پرستی اور ہر قسم کے فوبیا  کے برخلاف، اسلام دشمنی،  یہودیت دشمنی ی اور   عیسائیت  دشمنی  سمیت ہر طرح کی انتہا پسندی کے  خلاف مل جل کر کاروائیاں کرنا  سود مند  ثابت ہو گا۔

چاوش اولو نے کہا کہ خاص طور پر مرکزی سیاست دانوں کی منفی بیان بازی نے مستقبل کے بارے میں خدشات کو  شہہ دی ہے  "ہم فرانس میں ترک اور مسلم  طبقے کی مساجد اور انجمنوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کی توقع کرتے ہیں۔"

فرانسیسی وزیر خارجہ کولونا نے بھی اس موقع پر  کہا کہ  "ہمار وقتاً فوقتاً مختلف تجزیے ہو سکتے ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے  لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔بعض  دفعہ  ہمارے تجزیات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لہذا اتفاق قائم ہونے والے   معاملات کی تعداد  کو بڑھانا چاہیے  اور وقتاً فوقتاً اختلاف رائے ہو تو بھی   ان پر بحث کی جانی  چاہیے۔"



متعللقہ خبریں