تجزیہ 17

سلسلہ آستانہ کے حوالے سے 17 ویں ترکی، روس اور ایران اجلاس کے ممکنہ اثرات پر ایک جائزہ

1752261
تجزیہ 17

سلسلہ آستانہ  سے متعلق  اجلاس  ایک طویل وقفے کے بعد ترکی، روس اور ایران کی شراکت سے سر انجام پایا۔ 21 تا 22 دسمبر 2021 کو نور سلطان  میں شام کے موضوع پر اعلی سطحی اجلاس میں شام کی عمومی صورتحال ، دہشت گردی اور علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد اور مہاجرین کی وطن واپسی کے معاملات پر غور کیا گیا۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔

 شام کے اندر کچھ مدت سے   نمایاں  سطح کی  فوجی حرکات و سکنات ہو رہی ہیں تو سیاسی سلسلہ حل میں بعض رکاوٹوں کا سامنا   ہے۔  ان حالات میں ترک، روسی  اور ایرانی وفود  ایک طویل  مدت کے بعد  17 ویں مرحلے کے مذاکرت کے  دائرہ عمل میں نور سلطان   میں  دوبارہ سے یکجا ہوئے۔ شام کی موجودہ  صورتحال  میز پر زیر ِ غور آئی ہے تو فریقین کی پوزیشن میں تا حال کوئی تبدیلی نہ آنے کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔  اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں  واضح کیا گیا ہے کہ اجلاس میں ’’سیاسی حل سلسلے کی تازہ پیش رفت، ادلیب کی صورتحال، انسانی امداد و انسداد دہشت گردی معاملات پر غور کیا گیا ہے۔ ‘‘ ترک دفتر خارجہ نے  اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’طرفین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ  کی آڑ میں عملی جامہ پہنائے جانے  کی کوشش ہونے والے  غیر مشروع   خود مختار انتظامیہ کے قیام کی کوششیں ناقابلِ قبول  ہونے  پر زور دیا ہے۔  دریائے فرات کے مشرقی کنارے  علیحدگی پسند  ڈھانچوں  کی جانب سے شہریوں پر  بڑھنے والے حملے اور دباؤ  پر    گہرے خدشات کو زیرِ لب لایا گیا  اور اس ضمن میں   پی کے کے۔ وائے پی جی کے  برخلاف  ہماری  جدوجہد اور جنگ کے عزم پر زور دیا گیا ہے۔ ‘‘ یہ بیانات خاصکر  اہمیت کے حامل ہیں۔

ترکی، روس اور ایران کی   پی کے کے۔ وائے  پی جی  سے متعلق دوغلی پالیسیوں سے  بے چینی  محسوس کرتا ہے۔  روس کے شامی انتظامیہ اور پی کے کے ۔ وائے پی جی کے درمیان  مذاکرات  ، ترکی کی کسی ممکنہ فوجی کاروائی  کے برخلاف    کھڑا ہونے  کی کوششیں  ترکی کے شک و شبہات کو اس اعتبار سے  بڑھا رہی ہیں۔

دہشت گرد تنظیم پی کے کے۔وائے پی جی  تا حال دریائے فرات کے مشرقی کنارے کے تقریباً 45 تا 50 مربع کلو میٹر کے رقبے کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے تو  ان علاقہ جات میں خاصکر ترکی کی سرحدی پٹی پر روس اور روسی فوجی دستے  بھی پی کے کے۔وائے پی جی دہشت گرد عناصر  کے  شانہ بشانہ صف بند ی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔  مزید جنوب کی جانب امریکی فوجی  تعینات  ہیں۔  فرات کے مغربی کنار ے کے تل رفعت اور منبج  میں  اسی سے مشابہہ صورتحال موجود ہے ۔  پی کے کے ۔ وائے پی جی عناصر ان مقامات کو ترکی  کے زیر ِ کنٹرول  علاقہ جات  میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنے  کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور گاہے بگاہے  براہ راست  ترک فوجیوں پر دہشت گرد حملوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ترکی موجودہ صورتحال کو کسی بھی قیمت قبول نہیں کر سکتا۔  جیسا کہ  اس سے قبل صدر رجب طیب ایردوان   نے بھی وضاحت کی تھی  کہ  مذکورہ علاقوں سے دہشت گرد عناصر کا  روس اور شامی انتظامیہ    مکمل طور پر صفایا کرے گی وگرنہ ترکی براہ راست عسکری کاروائی کرے گا۔

روس   کو ترکی کی حساسیت اور دہشت گرد تنظیم پی کے کے۔وائے پی جی کے معاملے میں قومی سلامتی    کے لیے در پیش خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے   کسی مؤقف کو اپنانا ہو گا وگرنہ  شام میں کسی حل کا حصول اور  نقصان ۔ نقصان کے  دائرے سے نجات پانا ناممکن بن جائیگا۔



متعللقہ خبریں