تجزیہ 07

شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیم PKK۔ وائے پی جی کے برخلاف نئی ممکنہ عسکری کاروائی

1720148
تجزیہ 07

صدر رجب طیب ایردوان  نے اپنے  تازہ بیان میں  شام میں PKK ۔ وائے پی جی کے زیر قبضہ  علاقوں سے ہونے والے حملوں کے بارے میں ’’اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے‘‘ الفاظ صرف کیے ہیں تو  مؤثر  مقامی  قوتوں کے ہمراہ یا پھر واحدانہ طور پر  پی کے کے۔ وائے پی جی  کے خلاف   نئی عسکری کاروائی کیے جانے کا اظہار کیا ہے۔  اس بیان کے بعد اب تمام تر نگاہیں  شام کی جانب مڑ گئی ہیں تو سوچی میں  کچھ مدت قبل  ایردوان اور پوتن کے درمیان  ہونے والی  بات چیت کو  بھی اس  ضمن میں قطعی  فیصلے کی راہ ہموار کرنے کے طور  پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

 سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔

صدر ایردوان کے ’اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا  ہے‘ بیانات کے بعد ترکی کی جانب سے شام میں  وائے پی جی کے زیر کنٹرول ہونے والے بعض مقامات پروسیع پیمانے کی فوجی کاروائی کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے ۔ در اصل  یہ کہنا ممکن ہے کہ ترکی ایک طویل عرصے سے خطے میں ’’حکمتِ عملی صبر‘‘ کے منشور پر کاروائیا ں کر رہا تھا۔ امریکہ اور روس کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں  کے برخلاف PKK۔ وائے پی جی  ترکی سے متصل سرحدی علاقوں میں اپنی  کاروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ دہشت گرد تنظیم پی کے کے۔ وائے پی جی ترکی کے زیر کنٹرول عفرین، عزیز، جرابلس، باب، تل عبید اور راس العین  جیسے مقامات میں داخل ہوتے ہوئے دہشت گرد کاروائیوں میں مصروف ہے، یہ  ان مقامات پر ترک مسلح افواج سے منسلک عناصر اور شامی قومی فوج  سے وابستہ  قوتو ں کو ہدف بنا رہی  ہے  اور اس سے بھی بڑھ کر مذکورہ علاقوں میں عدم استحکام کا ماحول پید اکرنے کے لیے   شہریوں کو ہدف بنانے والے  بم حملوں کی مرتکب  ہو رہی ہے۔

ترک مسلح افواج اور قومی خفیہ سروس ، اندرون ملک اور خاصکر  شمالی عراق میں  PKK کے خلاف کامیاب کاروائیاں کرتے ہوئے  تنظیم کا قلع قمع کر رہی ہے  تو  دوسری جانب PKK  کے شام میں بازو  پی وائے ڈی۔وائے پی جی  امریکہ اور روس کی   پشت پناہی میں ترکی  کے صبر کا امتحان لینے کی حد تک   کارائیاں کر رہی ہے۔  تا ہم جیسا کہ ترک صدر ایردوان   نے کہا ہے کہ ترکی  کے لیے شام میں اب  حدود پار کر لی گئی ہیں۔  اس سے قبل   کی فرات ڈھال ، شاخ ِ زیتون اور چشمہ امن  عسکری کاروائیوں کی طرح  کسی نئی کاروائی   کے وقوع پذیر ہو سکنے کا احتمال قوی بنتا جا رہا ہے۔

اس نکتے  پر ہمیں  خاصکر گزشتہ  ایام میں  سوچی میں منعقد ہ  ایردوان۔ پوتن سربراہی اجلاس کو بھی بالائے طاق رکھنا ہو گا۔  دونوں سربراہان نے  بلمشافہ ملاقات میں  شام کی صورتحال  پر غور کیا اور طرفین کے  داخل ہونے والے نقصان۔ نقصان  کے ماحول  سے   نجات پانے  کے ارادے کا برملا اظہار کیا۔ دو طرفہ طور پر  موجودہ  پوزیشن  کی از سر نو تشکیل اور مراعات کی بدولت  ایک مشترکہ  زمین    کو ہموار کیے جانے کا احتمال بھی  پایا جاتا ہے ۔  اس پیش رفت کے مستقبل قریب میں ادلیب اور وائے پی جی کے زیر کنٹرول   علاقوں میں  اہم نتائج ظہور پذیر ہو ں گے۔  تا ہم دونوں سربراہان کے مثبت مؤقف کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اگر کوئی نتیجہ حاصل نہ کیا جا سکا  گیا  تو اس صورت میں روس اور اسد انتظامیہ ادلیب کو  ہدف بنائے گی ، ترکی یہاں پر  ان حملوں کا سد باب کرنے   والی طاقت کی حیثیت سے جواب دے گا، ترکی  PKK۔ وائے پی جی کے  خلاف عسکری کاروائیاں شروع کرے گا اس پیش رفت کے بعد  روس اور  اسد قوتوں کا    ترکی کے مد مقابل آنے کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔



متعللقہ خبریں