اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب09

"دنیا کے قدیم ترین بحری جہاز کی باقیات"

1629365
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب09

انسان دریاوں پر  بند باندھنے کے ساتھ ہی اس کی طاقت سے لا خوف ہو گیا ۔ اب وہ ماضی کی طرح طغیانی  سے گھبرا تا نہیں تھا۔  اب دریاوں کاپانی انسان کو خوف میں مبتلا نہیں بلکہ اس کے تجسس کا سامان بن رہا تھا۔انسان نے پہلے پہل  کم گہرے پانیوں پر کچھ راستے بناتے ہوئے مسافت طےکرنا شروع کی  بعد ازاں درختوں کی چھال سے چپو بنانا سیکھا اور زیادہ دور تک سفر شروع کیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ تجارت ہونا شروع  ہوئی تو انسان نے دریاوں اور سمندروں کا سینہ چیرنا شروع کیا اور ان کے لیے بادبانی کشتیاں  ایجاد کی گئیں۔

خیال ہے کہ بادبانوں کا پہلا استعمال مصر اور میزوپوتامیا میں ہوا جس کی بدولت چپووں کی افادیت ختم ہو گئی اور  با آسانی ہوا کےرخ کی مدد سے  فاصلہ طے کیا جانے لگا۔پہلے انسان نے قریبی علاقوں تک اور بعد ازاں  بحری آمدورفت میں  ترقی پانے کے ساتھ طویل الفاصلہ سفر شروع کیے ۔اس ترقی میں  اناطولیہ کی جنوبی ریاستوں اور بعد میں مغربی تہذیبوں  نے تجارت  کی۔ ابتدائی وقت میں  کھلے سمندروں کے مقابلے میںبحیرہ روم تجارت کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا  مگر وہاں  بھی بعض حادثات ہوئے اور جہاز غرق ہونا شروع ہو گئے۔ ان غرقاب جہازوں کی بدولت ہمیں پرانی تہذیبوں سے متعلق کافی کچھ معلومات ملی ہیں۔

 اناطولیہ کے خطے میں ہزار ہا سالوں تک  درجنوں تہذیبیں پروان چڑھیں،یہ خطہ آثار قدیمہ کی جنت ہے جہاں کھلی ہوا کے عجائب خانے آپ کی  تسکین کے لیےوافر موجود ہیں۔ہر نئے روز سائنسی دنیا ہمیں نت نئی بازیافتوں کا پتہ دیتی ہے۔ کوہسار،پتھر،وادیاں یہ تمام عناصر ہمیں تاریخی ادوار کا پتہ دیتے ہیں۔ مگر کیا صرف صرف خشکی ہی ہمیں یہ سب بتا دیتی ہے  ،جی بالکل نہی اس علاقے کی سمندروں سے بابت بھی تاریخ بتانے سے تعلق رکھتی ہے۔ترکی کے سمندری علاقے بحری آثار قدیمہ کے نقطہ آغاز کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ یہاں کے بحری علاقے قدیم ادوار  سے سمندری تہذیب کی میزبانی کا شرف لے چکے ہیں۔ یہ علاقہ تین جانب سے سمندر میں گھرا ہےجہاں کی آبی گزرگاہیں تجارتی بیڑوں اور بعد ازاں مسافر بحری جہازوں کے گزر کا وسیلہ بنیں۔

دنیاکا پہلاغرقاب جہاز   جنوبی ترکی میں انطالیہ کے قصبے قوملوجہ کے قریب دریافت ہوا جسے اسپنج حاصل کرنے والے ایک غوطہ خور نےافشا کیا۔اس غرقاب جہاز جس کا نام "گالی دونیا" تھا سے اسے پیتل،تانبے اور قلعی کی بعض  اینٹیں ملیں جن کاتجزیہ کرنے پر معلو ہوا کہ اس جہاز کی تاریخ تین ہزار دو سو سال پرانی ہے۔اسی مقام پر اس جہاز کی باقاعد ہ سے تحقیق  سن انیس سو ساٹھ میں  مکمل  ہوئی جہاں سے ماہرین کو پیتل کی کلہاڑیاں، کدالیں،نیزے اورزرعی آلات ملے۔یہاں سے  کچھ دھاتوں کی باقیات بھی ملیں جو کہ خیال ہے کہ اس دور میں قابل تجدید عمل کےلیے استعمال کی جاتی ہونگی جس نے ماہرین کو دم بخود بھی کیا۔
 تحقیق سے ملنے والے نوادرات  بودروم کے بحری  عجائب خانے کے قیام کی بنیاد بنے اور اس طرح سے ترکی کا پہلا بحری عجائب خانہ وجود میں آیا۔ اس تحقیق سے امریکہ کو بھی بحری تہہ میں دبے خزانوں کی تلاش کا بہانہ ملا۔

انطالیہ کے ساحلی قصبے قاش کے قریب سن انیس سو چوراسی میں  ایک جہاز کا  ملبہ دریافت ہوا جس نے گالی دونیا   کے دنیا کے  قدیم ترین غرقاب جہاز کا عنوان  اپنے نام کروا لیا کیونکہ  یہ ملبہ گالی دونیا سے دو سو سال مزید پرانا تھا۔یہ دریافت بیسویں صدی کی  اہم ترین بازیافتوں میں شمار ہوئی اس جہاز کے ملبے سے پیتل کی اینٹیں اور کوبالٹ،نیلے،فیروزہ اور جامنی رنگوں کے بعض شیشے کے ٹکڑے بھی ملے  تھےشیشہ سازی کو دنیا کا قدیم ترین فن مانا جاتا ہے جو کہ دلیل بنا کہ   اس دور میں شام سے بحیرہ ایجین کے درمیان تجارتی ذریعہ  تھا۔اس کے علاوہ ہاتھی اور دریائی گھوڑوں کے دانت،پیتل کے تیر اور نیزوں کی نوکیں اور دیگر ہتھیار بھی یہاں سے ماہرین کو ملے۔

 قبرص سےتجارتی مال جہازوں پر لاد  دیا گیا  ہر  کام معمول کے مطابق تھا ،جہاز ں نے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ان جہازوں پر پیتل لدا تھا جو کہ سمندر میں طوفان کی نذر ہو گئے اور شدید ہواوں کے رخ پر بہتے بہتے انطالیہ کے قریب گرق ہوئے۔
 دنیا کے اس قدیم ترین غرقاب  بحری جہاز کے ملبے  کا ذکر کیا جار ہا ہے۔ آج سے تین ہزار چھ سو سال قبل اس جہاز کے سفر پر کیا بیتی اس کا  احوال ماہرین  یہی لگا سکے ہیں جو کہ ڈوبتے ہی بیسویں صدی میں ہمارے لیے تاریخ کا ایک نیا باب بن کر ابھرا۔اس جہاز کے  پینتیس سال بعد دوبارہ انطالیہ کے قریب ایک دیگر جہاز کا ملبہ ملا جس نے اس کا بھی قدیم ترین  جہاز کا عنوان  اپنے نام کرلیا۔یہ ملبہ ہمیں مزید دو سو سال قبل کی تاریخ کا حوالہ دیتا ہے کیونکہ یہ دنیا کا قدیم ترین غرقاب بحری جہاز کا ملبہ تھا جو کہ مغربی انطالیہ کے قریب دریافت ہوا۔اس جہاز پر ڈیڑھ ٹن کے لگ بھگ پیتل لدا ہوا تھا۔

 

انسان کا سمندر میں سفر کرنا، مختلف علاقوں پر قدم رکھنا،نئی ثقافتوں سے روشناس ہونا اور تجارت کو وسیع  و عریض خطے تک پہنچانااس اہم ایجاد کے وسیلے ممکن ہوا۔ مثال کے طو رپر دور حاضر  کے شام اور لبنان  کے اطراف میں مقیم اور  اس دور کے بہترین بحری بیڑے کے حامل فینیکیا قوم   اپنے بیش بہا تجارتی مال  کو میزو پوتامیا، یونان حتی بعض محققین کے تحت انگلستان تک لے کر جاتی تھی۔ اناطولیہ کا خطہ اس حوالے سے ایک اہم بحری گزر گاہ بن چکا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ قدیم بحری جہازوں کی باقیات کی تلاش کا آغاز  ترکی کی سمندری حدود میں کیا جاتا رہا ہے۔اور کوئی شک نہیں کہ ان بازیافتوں کے نتیجے سے قدیم تواریخ  کے نایاب اور انمول نوادرات اور معلومات ہمیں حاصل ہوئیں۔ اب بھی    کافی ایسے عجائبات   اناطولیہ  کےبحری اور بری علاقوں میں ہونگے جن کی تلاش باقی رہ گئی ہے۔

آج ہم نے آپ کو اناطولیہ کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے قدیم ترین بحری جہازوں کی بازیافت شدہ باقیات کے بارے میں بتایا ۔

 



متعللقہ خبریں