ترک لوک کہانیاں۔24
آج جو کہانی میں آپ کو سناوں گی اس کا نام ہے "بونا ارسطو"۔
آو بچو جلدی سے جمع ہو جاو کہانی گھر کھلنے لگا ہے۔آج جو کہانی میں آپ کو سناوں گی اس کا نام ہے "بونا ارسطو"۔۔۔
سمیر پہاڑ کی دھوپ والی سمت میں، دودھ کی جھیل کے کنارے ایک بَونا لڑکا رہتا تھا۔ اس کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ وہ گھاس میں چھپ جاتا تھا۔ اس کا چہرہ گول مٹول اور آنکھیں ستاروں کی طرح جگمگاتی تھیں۔ وہ کبھی نہیں روتا تھا۔
ایک دن سفید خان نامی شکاری اپنے گھوڑے پر سوار دودھ کی جھیل پر آیا۔ جھیل کے کنارے ایک انجانی اور سرلی آواز سُن کر اس نے اپنے دل میں سوچا کہ کیا "پھول بھی گانا گا سکتے ہیں؟" جب اس نے گھوڑے سے اترکر چابک کے دستے سے ایک پھول کو ہٹایا، تو اچانک اسے گول چہرے والا بونا لڑکا نظر آیا ۔ لڑکا ایک لکڑی کے ٹکڑے پر بیٹھا بانسری بجا رہا اور ناچ رہا تھا۔ سفید خان نے حیران ہو کر لڑکے سے پوچھا کہ :
بیٹا، تمہارا نام کیا ہے؟
میرا نام ارسطو ہے۔
تمہارے ماں اور باپ کون ہیں
سمیر پہاڑ میرا باپ اوردودھ کی جھیل میری ماں ہے۔
خان نے کہا کہ تم یہ کیسے جانتے ہو کہ یہ پہاڑ تمہارا باپ اور جھیل تمہاری ماں ہے؟
لڑکے نے کہا کہ پہاڑ مجھے اپنی خوشبودار سٹرابری سے پالتا ہے، اور جھیل اپنے پانی سے سینچتی ہے۔
بچے کا جواب سفید خان کو بہت پسند آیا اور اس نے کہا کہ کیا تم میرا بیٹا بننا چا ہو گے، ارسطو؟ میں تمہیں ریشم کا لباس پہنائوں گا، پھل اور میوے کھلائوں گا، اور تیز دوڑنے والے خوبصورت گھوڑوں پر سوار کروں گا۔ ارسطو نے اس کی تجویز مان لی اور گھوڑے پرسوار ہو گیا۔ جیسے ہی اس نے سفید خان کو مضبوطی سے پکڑا سفید خان نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔
لیکن جیسے ہی وہ گھر پہنچنے سفید خان کا رویہ بالکل بدل گیا۔ اس نے بچے کو مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے کا کام سونپ دیا۔ارسطو گرمی سردی بارش دھوپ کی پروا کئے بغیر دن رات مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ رفتی رفتی اس کی صحت اور ظاہری حالت اتنی خراب ہو گئی کہ ایک دن اس کی آنکھوں سے آنسو اور منہ سے غمگین گیت بہنے لگے۔ ایک دن جب ارسطو جانور چرا رہا تھا تو اسے اونگھ آ گئی۔ اس کے خواب میں ایک سفید بالوں والا، جھریوں سے بھرے چہرے والے بوڑھاے آدمی کو دیکھا۔
بوڑھے نے کہا اے میرے بیٹے، جب تم کھیت میں اکیلے رہتے تھے، تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں تھے، اور اب تمہارا یہ حال ہے کہ تم دکھ بھرے گیت گاتے ہو اور خواب میں بھی دلگیر رہتے ہو۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
لڑکے نے کہا اے بزرگ محنت کرتے کرتے میرے ہاتھوں اور پیروں میں چھالے پڑ گئے ہیں اور – میرے بازوؤں میں طاقت نہیں رہی۔ میرے پیٹ بھوکا ہے اور گائیوں کے ساتھ دن رات گھومنے سے میری حالت خسته ہو چکی ہے۔
بوڑھے آدمی نے اپنی داڑھی کو سہلاتے ہوئے کہا کہ:
بیٹے، اگر تم گائیوں کو آرام دینا چاہتے ہو تو "ٹھہر" کہو، وہ اسی جگہ جم جائیں گی۔ اور جب پھر سے چرانا چاہو گے تو "چلو" کہو، تو گائیں چرنے لگیں گی۔
ارسطو نے سر اٹھایا اور آنکھیں کھولیں، نیلے آسمان میں صرف سورج چمک رہا تھا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
گائیں ہر طرف چرتی پھر رہی تھیں۔ ارسطو نے آزمانے کے لئے "ٹھہرو" کہا توسب گائیں اپنی جگہ پر جم گئیں۔ پھر "چلو کہا تو گائیں چلنے پھرنے لگیں۔اب لڑکا خوش تھا۔ لیکن ایک مسئلہ ہو گیا۔ کم چرنے کی وجہ سے گائیں کمزور ہوتی گئیں۔ یہ حال دیکھ کر ایک دن سفید خان نے کہا کہ : تم بہت کام چور ہو تمہیں ابھی تک گائیں چرانا نہیں آیا۔اس کے بعد اس نے ارسطو کوکھانا پکانے کے کام پر لگا دیا۔لڑکا دن رات کھانا پکاتا اور گندے برتن مانجتا رہتا۔اسے نہ سونے کا وقت ملتا نہ ہی کھانا کھانے کا۔یہی نہیں سفید خان کا لڑکا اور لڑکی دونوں اتنے شرارتی تھے کہ ہر وقت ارسطو کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ایک دن اس نے تنگ آ کر کہا"ٹھہرو" تو ایک دوسرے سے لڑتے بچے وہیں جم کر رہ گئے یہ دکھ کر خان کی بیوی نے رونا پیٹنا اور ارسطو کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ارسطو نے ایک دفعہ پھر "ٹھہرو" کہا تو عورت بھی اپنے بچوں کے ساتھ چپک گئی۔ دور سے آتے خان نے جب اپنے بیوی بچوں کی بے بسی میں ڈوبی فریادیں کرتی آوازیں سُنیں تو وہ تیزی سے ارسطو کو مارنے کے لئے بھاگا۔ ارسطو نے ایک دفعہ پھر "ٹھہرو" کہا تو وہ بھی وہیں کا وہیں جم گیا۔
اب وہ سب ارسطو کی منّتیں کرنے لگے کی خدا را ہمیں اس تکلیف سے آزاد کردو۔ ارسطو نے کہا کہ میں تمہیں آزاد کر دوں گا لیکن میری ایک شرط ہے کہ ناں تو میرا پیچھا کرنا اور نہ ہی دوبار کسی پر ظلم کرنا۔ سفید خان اور اس کے پورے کنبے نے ارسطو سے معافی مانگی اور آئندہ سے نیکی کرنے اور نیکی پھیلانے کا وعدہ کر لیا۔
ارسطو نے "چلو " کہہ کر سب کو آزاد کر دیا اور خود اپنی بانسری اٹھا کر اپنے جنگل اور سمیر پہاڑ کی طرف روانہ ہو گیا۔کہتے ہیں کہ آج بھی جنگل میں ہوائیں ارسطو کے نغمے گاتی ہیں۔