ترک لوک کہانیاں۔14
آج جو کہانی میں آپ کو سناوں گی اس کا نام ہے "نیکی بھی اپنے ساتھ برائی بھی اپنے ساتھ"۔
آو بچو اپنی اپنی جگہ سنبھال لو کہانی گھر کھُلنے لگا ہے۔ آج جو کہانی میں آپ کو سناوں گی اس کا نام ہے "نیکی بھی اپنے ساتھ برائی بھی اپنے ساتھ"۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت ایک دانا کے پاس گئی اور اس سے پوچھا کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ نیکی کرنے تو اس کا بدل کیا ہو گا؟
دانا کہتا ہے کہ: جو بھی کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہے اصل میں اپنے ساتھ نیکی کرتا ہے۔
عورت دوبارہ سوال کرتی ہے : اگر کوئی کسی کے ساتھ بُرائی کرے تو اس کا بدل کیا ہوگا؟
دانا کہتا ہے کہ: جو بھی کسی کے ساتھ بُرائی کرے اصل میں اپنے ساتھ بُرائی کرتا ہے۔
عورت یہ سُن کر دِل ہی دِل میں ہنستی اور کہتی ہے لو یہ بھی کوئی بات ہوئی نیکی کرو تو وہ بھی اپنے ساتھ بُرائی کرو تو وہ بھی اپنے ساتھ ۔ یہ سوچ کر وہ دانا کی بات کو آزمانے کا تہّیہ کر لیتی ہے۔
عورت کہتی ہے کہ کیوں نہ میں کسی کے ساتھ بُرائی کروں اور کسی کے ساتھ نیکی پھر دیکھتی ہوں میری بُرائی اور نیکی میری ہی طرف کیسے لوٹتی ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی ہوتی ہے کہ اس کے دروازے پر دو دیوانے آتے اور عورت سے کھانے اور پینے کو کچھ مانگتے ہیں۔ عورت گھر میں موجود سب روٹیاں جمع کرتی اور ایک روٹی پر زہر چھڑک کر ایک دیوانے کو دے دیتی ہے۔ اس کے بعد گھر میں بندھی بکری کا سارا دودھ دھو کر دوسرے دیوانے کو خیرات کر دیتی ہے۔
دیوانے اتنی زیادہ روٹیاں اور تازہ دودھ لے کر بے حد خوش ہوتے اور عورت کو فراخی رزق کی دعائیں دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
اِدھر عورت یہ بُرائی اور نیکی کر کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے کہ دیکھوں اب کیا ہوتا ہے ۔ دوسری طرف دیوانے خوشی خوشی اپنے جھونپڑے کی طرف جا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ٹکراو ایک قافلے سے ہو جاتا ہے۔ قافلہ دُور دراز کے سفر سے لوٹ رہا ہوتا ہے۔ لمبے سفر کی وجہ سے قافلے والوں کا کھانا پانی سب ختم ہو چُکا ہوتا ہے اور وہ بھوک پیاس سے نڈھال بیٹھے ہوتے ہیں۔
قافلے کے مسافر جیسے ہی دیوانوں کے پاس روٹیاں اور دودھ دیکھتے ہیں تو ان پر جھپٹ پڑتے اور ساری روٹیاں چھین کر آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ زہر والی روٹی اور دودھ قافلے کے سردار کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ قافلے کا سردار دودھ اپنے پیاس سے بیہوش بیٹے کو پلا دیتا اور روٹی خود کھا لیتا ہے۔ دودھ پیتے ہی لڑکے کی تو جان میں جان آجاتی ہے لیکن قافلے کا سردار روٹی کھاتے ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔ قافلے کے لوگ یہ ماجرا دیکھ کر بے حد حیران ہوتے اور دوڑے دوڑے قاضی کے پاس جا کر سارا ماجرا کہہ سُناتے ہیں۔ قاضی دیوانے کو بُلاتا اور پوچھتا ہے کہ اس نے زہر والی روٹی کہاں سے لی تھی۔ دیوانہ قاضی کو اُس عورت کے دروازے پر لے جاتا اور بتاتا ہے کہ اس گھر کی مالکن نے مجھے روٹیاں دیں اور میرے ساتھی کو تازہ دودھ دیا تھا۔ قاضی عورت کو عدالت میں بُلاتا اور اس حرکت کی وجہ پوچھتا ہے۔
عورت کہتی ہے کہ ایسے ایسے میں نے ایک دانا سے نیکی اور بُرائی کے نتیجے کے بارے میں سوال کیا تو اس نے مجھے کہا کہ ہر انسان کی نیکی بھی اپنے ساتھ اور بُرائی بھی اپنے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ میں نے یہ بات آزمانے کے لئے ایک روٹی پر زہر چھڑک کر ایک دیوانے کے ساتھ بُرائی کی اور اپنی بکری کا سارا دودھ دے کر دوسرے دیوانے کے ساتھ نیکی کی۔ قاضی کہتا ہے کہ وہ روٹی کھا کر ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے لیکن وہ دودھ پی کر ایک نوجوان موت کے منہ سے واپس لوٹ آیا ہے۔ عورت جب لاش کو دیکھتی ہے تو ایک دردناک آہ کھنچتی اور کہتی ہے کہ افسوس میں نے دیوانے کو نہیں اپنے ہی شوہر کو مار ڈالا ہے۔ پھر پوچھتی ہے کہ دودھ پینے والا نوجوان کون ہے؟ جب نوجوان اس کے سامنے آتا ہے تو اپنے بیٹے کو صحیح سلامت دیکھ کر خدا کا شُکر ادا کرتی اور کہتی ہے کہ کاش میں نے بُرائی کرنے میں اتنی بے خوفی سے کام نہ لیا ہوتا۔
جی تو بچو آج کی کہانی سے ہمیں جو درس ملتا ہے وہ یہ کہ ہمیں عمل کرنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لینا چاہیے۔ نہ نیکی کرنے سے گھبرانا چاہیے اور نہ ہی بُرائی کرنے میں بے خوفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ ہمارا عمل گھومتا پھرتا کہیں نہ کہیں سے واپس ہمارے پاس آ ہی جاتا ہے۔