تجزیہ 37

ترکیہ اور مصر کے درمیان تعلقات کی بحالی اور اس کے سابقہ اور مستقبل کے ممکنہ اثرات

2187119
تجزیہ 37

 

ترکیہ اور مصر کے درمیان 4 ستمبر 2024 کو انقرہ میں منعقدہ اعلیٰ سطحی تزویراتی تعاون اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم تبدیلی اور تنظیم نو کے عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اجلاس کے نتیجے میں 16 معاہدوں پر دستخط کیے گئے اور 36 نکاتی  مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ ان معاہدوں اور اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تقریباً ایک دہائی تک جاری رہنے والے اختلافات اور تناؤ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات دوبارہ معمول کے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ خاص طور پر 2013 میں مصری صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد کشیدگی کے خاتمے کو علاقائی استحکام کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

کشیدگی کے دور نے انقرہ اور قاہرہ کو مختلف بین الاقوامی مسائل پر ایک دوسرے کے خلاف رقابت کے ماحول میں داخل ہونے  کی راہ ہموار کی۔ لیبیا اس رقابت  کی نمایاں مثالوں میں سے ایک تھا۔ لیبیا میں حالات کو متوازن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قاہرہ نے اس ملک میں ترکیہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔دوسری جانب مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے وسائل پر مسابقت نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ کر دیے۔ اس عرصے کے دوران، ترکیہ نے لیبیا اور مشرقی بحیرہ روم میں ایک زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے مصر کی مخالف  پالیسیوں  کا جواب دیا۔ دونوں ممالک  نےمشرق وسطیٰ کے پیچیدہ اور متغیر محرکات میں نظریاتی اور جغرافیائی سیاسی جدوجہد  شروع کی۔

اس عمل کے دوران اقتصادی تعلقات نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک پل کا کردار ادا کیا ۔ سفارتی اور انٹیلی جنس اور اقتصادی تعاون کی سطح پر بات چیت تعلقات کے مکمل طور پر منقطع ہونے کی راہ میں  رکاوٹ ثابت ہوئی۔ سن  2022 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران صدر رجب طیب ایردوان اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی ملاقات نے دونوں ممالک کے درمیان نفسیاتی دہلیزوں کو پار کرنے  میں معاونت فراہم کی۔ اس ملاقات نے دونوں ممالک کے لیے اپنے سفیروں کی دوبارہ تعیناتی اور تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کرنے کی راہ ہموار کی۔ فروری 2024 میں ایردوان کے دورہ مصر کو ترکیہ اور مصر کے تعلقات میں ایک اہم موڑ  کے طور پر قبول کیا گیا۔

متغیر محرکات

نئے دور میں، ترکیہ اور مصر کے تعلقات متعدد اسٹریٹجک پہلوؤں کے لحاظ سے ازسر نو مرتب ہوئے ہیں۔سال 2013 سے موازنہ کرنے سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ خطے کے اسٹریٹجک ماحول میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ اگرچہ بہارِعرب کے بعد ظہور پذیر ہونے  والی تصادم  کے ماحول میں  نمایاں سطح کی تبدیلیاں آئی ہیں تو بھی  دونوں ممالک کی علاقائی پوزیشن میں نمایاں فرق موجود ہے۔ترکیہ اور مصر کے تعلقات میں لیبیا کی صورت حال اب بھی ایک نازک مسئلہ ہے۔مصر،  جہاں لیبیا کے مشرق میں مضبوط فوجی اور سفارتی وجود کا حامل  ہے، تو وہیں ترکیہ لیبیا کے مغرب میں ایک اہم فوجی اور سیاسی اداکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور سیاسی رقابت  لیبیا میں تنازعات کے حل کومشکل بنا سکتی ہے۔ انقرہ اور قاہرہ دونوں کو لیبیا میں سیاسی استحکام اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔

مشرقی بحیرہ روم میں علاقائی ماحول بھی  اہم سطح کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ترکیہ، فوجی، اقتصادی اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے کہیں زیادہ موثر اداکار کے طور پر ابھرا ہے۔ جبکہ مصر توانائی کی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ بحیرہ روم میں سمندری دائرہ اختیار کے لحاظ سے دونوں ممالک اہم کھلاڑی ہیں۔ اسرائیل کے معاملے کو علیحدہ رکھتے ہوئے ، ترکیہ-مصر کے تعلقات کو 2020 کی دہائی میں شروع ہونے والے علاقائی معمول پر آنے والے نئے فریم ورک کے اندر از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ترکیہ کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آنے  نے انقرہ ۔قاہرہ معمولات کی بحالی کی راہ ہموار کی ہے۔ علاوہ ازیں، خلیج کے علاقے میں قطر کے سلسلہ معمولات اور تنازعات کے ادوار کے خاتمے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کیا۔

7 اکتوبر 2023 کو خطے میں اسرائیل کے عدم استحکام کے کردار نے ترکیہ اور مصر کے جغرافیائی سیاسی طاس میں عسکری  اور سفارتی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ غزہ کا تنازع سرحدی سلامتی اور انسانی بحران کے بجائے دونوں ممالک کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ترکیہ اور مصر کی طرف سے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کی سفارتی کوششیں، دونوں ممالک کو مشترکہ اہداف کی طرف موڑ نے کا موجب ثابت ہوئی ہو سکتی ہیں۔ غزہ میں جنگ کا خاتمہ، مستقل جنگ بندی کا اعلان ، خطے میں انسانی امداد کی رسائی، خطے کی تعمیر نو اور 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کیے جانے کی ضرورت پر مبنی پالیسیاں، دونوں ممالک کو کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کا وسیلہ ثابت ہو رہی ہیں۔

سٹریٹیجک فریم ورک

ترکیہ اور مصر کے تعلقات نئے علاقائی محرکات کی روشنی میں ایک نئے   اسٹریٹجک خصوصیت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات معیشت، تجارت، سلامتی، دفاع، ماحولیات اور موسمیاتی اقدامات جیسے متعدد مختلف  شعبوں میں پیش رفت کر رہے ہیں۔ اقتصادی اہداف میں 15 بلین ڈالر کا تجارتی حجم شامل ہے جوکہ  دونوں ممالک کو اقتصادی مواقع مہیا کررہا ہے ۔

باہمی تعاون کا تقاضا

قرن افریقہ میں ترکیہ کا کردار بھی تعلقات کے لحاظ سے ایک اہم سٹریٹیجک  عنصر ہے۔ ترکیہ نے شمالی افریقہ، مشرقی افریقہ اور ساحل علاقے میں اپنی سٹریٹیجک  رسائی کو مزید گہرا ئی دی  ہے۔ مصر کو خاصکر شمالی افریقہ اور قرن ِ افریقہ میں اپنی حکمت عملی ترجیحات کی از سر نو تشریح کرنا مقصود ہے۔ سوڈان کی خانہ جنگی، مصر اور ایتھوپیا کے درمیان تنازعات، اور صومالیہ اور ایتھوپیا کے درمیان عسکری اور سیاسی تنازعات کے بڑھتے ہوئے خطرات نے ترکیہ اور مصر کے تعلقات کو سٹریٹیجک  لحاظ سے  متاثر کیا ہے۔اس بنا پر انقرہ اور قاہرہ کو قرنِ افریقہ کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کارروائی کرنا  لازمی ہے۔

نتیجتاً، ترکیہ ۔ مصر تعلقات کا نیا اسٹریٹجک فریم ورک ، دونوں ممالک کو محتاط مؤقف اپنانے، اپنے تعلقات کو علاقائی بحرانوں  کے برخلاف تحفظ میں لینے  والے میکانزم کو فروغ  دینے اور اپنی شراکت داری کو ادارہ جاتی بنانے کی خاطر نئی خارجہ پالیسی، سلامتی، دفاع اور انٹیلی جنس کی نشاط کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ نیا دور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سٹریٹیجک تعاون کو مضبوط کرے گا اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس تناظر میں ترکیہ اور مصر کے درمیان تعاون نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔



متعللقہ خبریں