ہماری بہادر عورتیں۔15

آج ہم آپ کو ترکیہ کی پہلی خاتون ڈاکٹر خدیجہ صفیہ علی کی کہانی سُنائیں گے

2124249
ہماری بہادر عورتیں۔15

معزّز سامعین؛ پروگرام "مجھے درُست سوال بتاو" میں خوش آمدید۔ میں ہوں اسرایٰ گوزیل سس۔ پروگرام شروع کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ مقابلے کے اصول و قواعد سے آپ کو دوبارہ آگاہ کر دیں۔

ہمیشہ کی طرح ہمارے دو شرکاء کے درمیان مقابلہ  ہو گا اور آج کا موضوع ہے بہادر ترک عورتیں۔ میں مقابلے کے شرکاء کو موضوع کے بارے میں جواب بتاوں گی اور وہ مجھے درست ترین سوال  دینے کی کوشش کریں گے۔ یعنی ہمارا پروگرام سوال۔جواب کے فارمیٹ پر نہیں جواب۔سوال کے فارمیٹ پر ہو گا۔ جو شریک فوراً اور درست سوال بتائے گا وہ مقابلہ جیت جائے گا۔

 

مہمت بے اور صدف  خانم پروگرام میں خوش آمدید۔ میں آپ کے لئے کامیابی کی تمنّائی ہوں اور اس خیال کے ساتھ کہ آپ مقابلے کے لئے تیار ہیں پہلا جواب دے رہی ہوں۔ "پورا نام خدیجہ صفیہ علی، صفیہ علی کے نام سے مشہور، والد سلطان عبدالعزیز اور عبدالحمید دوئم  کے ہمدم اور دوست علی کیرات پاشا۔ والدہ، 17 سال تک مکّہ  کے شیخ الاسلام کے عہدے پر متمکن 'حاجی امین پاشا' کی بیٹی امینہ حسینہ خانم۔ صفیہ علی چار بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔  اور اس کی سب سے بڑی بہن ادویہ سارگت ترکیہ کے سابق وزیر اعظم بیولنت ایجوت  کی پڑنانی  تھی"۔ ابھی اسریٰ خانم نے جواب ختم کیا ہی تھا کہ مقابلے کے شریک مہمت بے نے فوراً سوال پوچھ ڈالا "پہلی ترک ڈاکٹر کون تھی؟"

کمپیئر اسرایٰ خانم نے فوراً اور درست جواب دینے پر مہمت بے کو مبارکباد دی اور اس کے فوراً بعد اگلا جواب پڑھنا شروع کر دیا۔

 

"صفیہ علی نے بچپن  سے ہی اچھی تعلیم حاصل کی۔ امریکن گرلز کالج میں حصول تعلیم کے دوران  اپنے استاد کی رہنمائی سے اس نے ڈاکٹری  کے پیشے سے دلچسپی لینا شروع کر دی۔1916 میں وہ کالج سے فارغ التحصیل ہوئی ۔ جنگِ بالقان کے ساتھ دولتِ عثمانیہ میں طویل جنگی دور کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے خاص طور پر ڈاکٹروں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔ اس دور میں دولتِ عثمانیہ میں ڈاکٹری کے اسکول تو موجود تھے لیکن ان اسکولوں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صفیہ علی نے وظیفہ حاصل کیا اور جرمنی کے ورزبرگ  شہر  جا کر ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی"۔

اب کی بار صدف خانم نے سوال پوچھنے میں تیزی دِکھائی اور کہا کہ " صفیہ علی کی تعلیمی زندگی کیسی گزری؟"

 

اسرایٰ خانم نے صدف کو مبارکباد دی اور تیسرا جواب پڑھنا شروع کر دیا۔

"اس کا نام فرڈیننٹ کرکلر تھا اور وہ آنکھوں کا ڈاکٹر تھا۔ صفیہ علی اپنے اسپیشلائزیشن کے دور میں اس سے ملی اور دونوں نے شادی کر لی"

اس بار مقابلے کے دونوں ہی فریق چُپ رہے اور کوئی سوال نہیں پوچھ سکے۔ مہلت پوری ہونے کے بعد اسرایٰ خانم نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ " صفیہ علی کے شوہر  فردی علی  کا اصل نام کیا تھا؟"

اسرایٰ نے کہا کہ آپ میں کسی کے بھی سوال نہ پوچھ سکنے کی وجہ سے مقابلہ ایک ایک سے برابر ہے۔ آئیے اگلے جواب کی طرف چلتے ہیں۔

 

"صفیہ علی 1923 میں ترکیہ کی پہلی لیڈی ڈاکٹر کی حیثیت سے وطن واپس لوٹی۔ اس کے بعد اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر استنبول میں کلینک کھولا اور خدمات کا آغاز کر دیا۔ اسی سال اس نے ہلالِ احمر جمعیت   کے زنانہ وارڈ میں بچوّں کی صحت کے لئے خدمات دینا بھی شروع کر دیں۔ اس کے بعد حمایت اطفال جمیعت کے زچہ،بچہ  شعبے میں کام شروع کر دیا  جسے آج اطفال سروسز جنرل ڈائریکٹریٹ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔1926 میں وہ اسی ادارے کی سربراہ بن گئی۔ 1927 میں اس عہدے سے دستبردار ہو ئی اور 1928 میں وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئی"۔

مقابلے کی شریک صدف خانم نے تیزی دِکھائی اور فوراً سوال پوچھا "صفیہ علی کی پیشہ وارانہ زندگی کیسے شروع اور کیسے ختم ہوئی؟"

 

اسرایٰ خانم نے مقابلہ جیتنے پر صدف کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ کی اجازت سے میں آپ کو صفیہ علی کے بارے میں کچھ اور معلومات بھی دینا چاہتی ہوں۔  کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد ترکیہ کی یہ پہلی ڈاکٹر جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ گئی اور کامیاب آپریشن کے بعد یہیں سے اپنے پیشے کو جاری رکھا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس نے جرمنی میں شہریوں کو صحت کی خدمات فراہم کیں اور جنگ کے بعد استنبول واپس لوٹ آئی۔ لیکن کینسر دوبارہ پھوٹ پڑا۔ صفیہ علی دوبارہ ڈورٹمنڈ گئی لیکن اب کی بار علاج  موثر ثابت نہیں ہوا  اور وہ 5 جولائی 1952 کو 58 سال کی عمر میں وفات پا گئی۔

بات ختم ہوتے ہی مقابلے کے دوسرے شریک مہمت بے نے مقابلے کی فاتح کو مبارکباد دی اور ایسا معلوماتی مقابلہ کروانے پر اسرایٰ خانم کا بھی شکریہ ادا کیا۔

 

 



متعللقہ خبریں