تجزیہ 09

روس اور یوکرین کی جنگ کی پیش رفت ، مریکہ اور مغرب کی یوکرین کو امداد میں خلل

2109839
تجزیہ 09

روس کے یوکرین پر قبضے  کے اقدام اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپوں کا دوسرا سال مکمل کو چکا  ہے۔ جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک سنگین جنگ کا مشاہدہ ہوتا ہے جس نے دونوں ممالک کو گہرائی سے متاثر کیا ہے اور دونوں فریقین کو بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ تاہم، جبکہ روسیوں نے حال ہی میں میدان میں برتری حاصل کرنا شروع کی ہے، مغرب کے لیے فیصلے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔ وہ یا تو یوکرین کی زیادہ معنی خیز حمایت کریں گے یا پھر روسی فتح  کو قبول کریں گے۔

سیتا خارجہ پالیسی  محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

آج سے دو سال قبل جب روس نے ایک تھنڈر  آپریشن کے ذریعے کیف پر قبضہ کرتے ہوئے ملکی اقتدار کو بدلنے کے لیے یوکرین  میں شروع کردہ  عسکری کاروائی ناکام ہونے پر  اس نے قدم بہ  قدم پر ایک بڑی یلغار کی شکل اختیار کر لی۔  تاہم  روسی فوج کی کم  ظرفی، یوکرینی فوج کی خلاف توقع  مزاحمت اور قوم پرستی کے جذبات سے ہم آہنگی سے یہ  حملہ ناکام ہو گیا۔خاص طور پر مغربی ممالک کی وسیع پیمانے پر فوجی امداد کے باعث، روسیوں کو اپنے زیر قبضہ بہت سے علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ تاہم جیسا کہ تاریخ میں کئی بار دیکھا گیا ہے کہ روس اپنی جغرافیائی گہرائی، قدرتی وسائل اور محنتی افرادی قوت کو متحرک کرکے جنگ کا رخ اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب رہا ہے۔ خاصکر  حالیہ مہینوں میں یوکرینی فوج کی غیر ملکی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہےتو انسانی وسائل کے ، خاص طور پر حالیہ مہینوں میں، یوکرینی باشندے، جو انسانی وسائل کے معاملے میں روس  کو یوکرین پر برتری حاصل ہونے  کے باعث یوکرینیوں کو مورچوں پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑنے لگا ہے۔ روسی فوج میں کمان اور کنٹرول کے ڈھانچے میں پوتن  کی طرف سے تبدیلی، متحرک ہونے کے فیصلے کے ساتھ اہلکاروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ، اور یقیناً دفاعی صنعت کی پیداواری صلاحیت میں اضافے سے با اثر نتائج سامنے آئے ہیں ۔

اس تناظر میں بدلتے ہوئے فوجی محرکات  نے خود کو میدان میں دکھانا شروع کر دیا ہے۔ خاص طور پر روسیوں کی جانب سے دونباس  کے کلیدی اہمیت کے حامل اور 2014 سے یوکرینی فوج کے قلعہ کی حیثیت رکھنے والے آدوییو کا   پر  قبضے نے  خطرے  کی گھنٹیاں  بجا نی شروع کردی ہیں۔

امریکہ میں کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے درمیان کشمکش نے یوکرین کو فراہم کی جانے والی  امداد کوالتوا میں ڈال دیا ہے تو ایسا  لگتا ہے کہ یورپی ریاستیں  بھی مطلوبہ حد تک  اپنی استعداد  اور سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے  روس کے خلاف یوکرین کا ساتھ نہیں دے  پا رہیں۔ اس کے بالکل برعکس جب روسیوں نے جنگی معیشت کو تشکیل دیتے ہوئے   اپنے وسائل کو زیادہ تر  جنگ کے لیےمختص کیا تو تو انہیں نتائج ملنا شروع ہوگئے اور انہوں نے چاہے قدم بہ قدم ہی کیوں نہ ہو  فرنٹ لائنوں  پر  برتری حاصل کرنی شروع کر لی ہے۔

اب یورپی ریاستوں نے خطرات کو بھانپتے  ہوئے کارروائی شروع کر دی ہے۔ براعظم یورپ کی  ریاستیں، جن کی قیادت جرمنی اور فرانس کر رہے ہیں، برطانیہ کے ساتھ مل کر یوکرین  سے  زیادہ بامعنی اور موثر طریقے سے  تعاون کرنے  کے حل چاروں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ تا ہم  ان کے مد مقابل ایک عظیم طاقت روس ہے۔  جنگ  چھڑے دو سال بیت چکے ہیں  تو روس کے  سامنے کافی  لاغر دکھنے والے یوکرین کے موجودہ حالات میں  مزید کس حد تک  مزاحمت کا مظاہرہ کر سکنے کے  اہم سوالات  نے بھی جنم  لیا ہے۔ لہذااسوقت  مغرب کے سامنے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ انہیں جلد از جلد اپنے اختلافات پر قابو پانے، امریکہ کو شامل کرنے اور یوکرینی فوج اور معیشت کو زیادہ بامعنی اور بھرپور طریقے سے سہارا دینے  کی ضرورت ہے۔  محض  اسی طریقے سے روسی پیش قدمی کا سد باب کرتے ہوئے انہیں دوبارہ پیچھے ہٹنے پر  مجبور کیا  جا سکتا ہے۔ وگرنہ  روس  کی یوکرین کے خلاف  فتح،  خطہ یورپ کو    سنجیدہ  معنوں میں  خطرے سے  دوچار کرنے والی  ایک  نازک جیوپولیٹیکل صورتحال  کو جنم  دے گی۔

یقیناً روس کی اس جیت سے سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا جو مغرب کے ساتھ جاری اقتدار کی کشمکش میں اپنے اتحادی روس کے ساتھ مل کر سامنے آئے گا۔



متعللقہ خبریں