تجزیہ 08

ترکیہ اور مصر کے تعلقات کی بحالی میں کونسے کونسے عوامل اور حقائق کارفرما ہیں

2106644
تجزیہ 08

ترکیہ اور مصر کے تعلقات دوبارہ سے حکمت عملی  شراکت داری ارتقا ء کے حامل ایک دور میں داخل ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک میں  تنازعات سے ہٹ کر مفادات کو ہدف بنانے والا ایک نیا ارادہ اور خواہش پیدا ہوئی ہے۔ اگرچہ علاقائی چیلنجز اور اندرونی مسائل بنیادی حیثیت رکھتے  ہیں توخاص طور پر مصر کے اعتبار سے ترکیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ ڈگر پر  لانے  کے  لیے سنجیدہ سطح کی مجبوری وجوہات موجود ہیں۔ مصر کئی شعبوں میں  ایک عظیم  بحران کا شکار ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا  اس موضوع کے حوالے سے جائزہ۔۔۔

مصر میں فوجی بغاوت کے بعد عبدالفتاح الاسیسی  بطور صدر ایک نئی حکومت قائم کر چکے ہیں، درحقیقت موجودہ  نظام مصر میں انقلاب سے پہلے کے دور کی واپسی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں طاقت کے مختلف بیوروکریٹک مراکز، جیسے فوجی اشرافیہ اور جزوی طور پر عدالتی بیوروکریسی کا غلبہ ہو۔ اگرچہ سیاسی نظام  بعض مشکلات کے باوجود برقرار ہے، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصل رکاوٹ ملکی معیشت سے تعلق  رکھتی  ہے۔

مصری معیشت ایک  سنگین بحران کی شکار ہے۔ ملک کا غیر ملکی تجارتی خسارہ  کافی زیادہ ہے تو سیسی انتظامیہ کے دور میں ملک پر 160 بلین ڈالر کا غیر ملکی قرضہ چڑھا ہے۔ گو کہ  مرکزی بینک کے ذخائر کو بیرون ملک سے زر  تبادلے کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں بڑی دقت پیش آرہی  ہے۔

مصر نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اسٹینڈ بائی معاہدہ طے کیا ہے اور اسوقت یہ ارجنٹائن کے  بعد آئی ایم کا  مقروض  دنیا کا دوسرا ملک ہے۔  قرضے کی نئی قسط کے لیے  آئی ایم ایف  سخت گیر شرائط  پیش کر رہا ہے۔ خاصکر  ملکی معیشت پر  فوج کے اثر رسوخ  کو مرحلہ وار  طور پر ختم کرنے، ملکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ اور سٹریٹیجک شعبوں سمیت نجکاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ نظام  ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے کچھ  زیادہ آمادہ نظر نہیں آتا۔ خلیجی ممالک  سے لیے گئے قرضے حد کو پہنچ چکے ہیں اور نئے وسائل کی  آمد  ممکن نہیں۔ ایک بار پھر، جیسا کہ سیسی نے حال ہی میں کہا تھا، نہر سویز سے 10 بلین ڈالر کی سالانہ آمدنی کا کم از کم نصف حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے ضائع  ہو رہا  ہے۔ اوسطاً مصریوں کی قوت خرید میں روز بروز کمی آ رہی ہے  اور  کبھی کبھار بنیادی ضروریات کے لیے بلیک مارکیٹ  کا وجود بھی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مصر ی پاؤنڈ  کے سرکاری اور اوپن مارکیٹ میں  دو الگ الگ نرخ ہیں۔  اوپن مارکیٹ میں اس کی قدر تقریباً نصف ہے۔

سنگین جغرافیائی سیاسی خطرات بھی  موجود ہیں۔ سوڈان میں خانہ جنگی نے مصر کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ایتھوپیا کے ساتھ نشاۃ ثانیہ ڈیم کا بحران مصر کی پانی کی فراہمی کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ لیبیا میں سیاسی اور فوجی تقسیم مصر کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے۔

لیکن  قریبی  خطرہ غزہ سے تعلق رکھتا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے غیر انسانی قتل عام کا بنیادی مقصد اس علاقے کوغیر  آباد کرنا اور غزہ کے باشندوں کو مصر کے جزیرہ نما سینائی میں  دھکیلنا ہے۔ یہ صورت حال ہر لحاظ سے مصر کی قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

لہذا ترکیہ-مصر اسٹریٹجک شراکت داری دونوں ممالک کے لیے اہم اور قیمتی ہے تا ہم یہ مصر کے لحاظ سے  کہیں زیادہ ضروری عمل ہے۔ مصر اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی دونوں خطرات کے بر خلاف ترکیہ کے ساتھ شراکت داری سے سنجیدہ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں