تجزیہ 07

ترک صدر کا 12 سال کے وقفے کے بعد مصر کا تاریخی دورہ

2103493
تجزیہ 07

2013 میں مصر میں فوجی بغاوت پر ترکیہ کے سخت ردعمل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ آیا تھا تو مشرقی بحیرہ روم اور لیبیا جیسے معاملات  پر بھی یہ دونوں ممالک مدِ مقابل آئے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، فریقین نے ایک نئے ارادے  کو پیش کیا ہے اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات اٹھانے شروع کر دیے۔ ایردوان اور سیسی کی قطر میں پہلی ملاقات کے بعدصدر ایردوان نے قاہرہ کا دورہ  کیا۔ جیسے جیسے دونوں ممالک اپنے تعلقات کو پٹری پر لا رہے ہیں، تو دورے میں بہت سے چیلنجز اور مشترکہ مفادات پر بات چیت ہوئی۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر ۔۔۔

مصر میں بغاوت نے ترکیہ اور مصر کے تعلقات کو گہرا نقصان پہنچایا۔ صدر ایردوان کی قیادت میں ترکیہ ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرا جس نے مصر میں فوجی بغاوت پر شاید دنیا میں سب سے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ جہاں دونوں ممالک کے تعلقات شدید تنزلی کا شکار ہو ئے وہیں کئی اہم معاملات پر ان کا آپس میں ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ فریقین کے درمیان ہار جیت کی جنگ شروع ہو گئی۔ مشرقی بحیرہ روم اور لیبیا میں کئی جگہوں پر اس کشیدگی کے آثار دیکھنا ممکن ہے۔ تاہم، جب دونوں ممالک کو علاقائی چیلنجز اور خطرات کا سامنا  کرنا پڑا ،  انہوں نے اس کشیدگی کو مزید جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ درحقیقت ترکیہ نے بہت سے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا شروع کر دیا ہے جن کے ساتھ اسے گزشتہ کچھ برسوں میں علاقائی معمولات  پر آنے کے لیے مشکلات کا سامنا تھا۔ اس ضمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان ممالک میں سرِ فہرست ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس  پیش رفت سے ترکیہ اور مصر کے تعلقات میں آسانیاں  آنے لگیں۔  ترکیہ اور مصر کے مابین  تیکنیکی  سطح   پر مذاکرات کرنے والے وفود کی تشکیل کے بعد ایردوان اور سیسی  نے قطر میں فٹ بال ڈپلومیسی  کی بدولت ملاقات  کی اور  اب ترک صدر نے مصر کا دورہ کیا ہے۔

جب ہم اسے مصر کے نقطہ نظر سےجائزہ لیتے ہیں  تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جس معاشی بحران سے گزر رہے ہیں وہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ پہلے وبائی بیماری اور پھر یوکرین روس جنگ نے مصر پر شدید منفی اثرات مرتب کیے اور غزہ میں اسرائیل کے حملوں اور ان کے ممکنہ اثرات نے بھی مصری معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر کی بندش نے اس صورتحال کو مزید تقویت بخشی۔ مصری معیشت جو پہلے ہی فوج کے تسلط میں بہت نازک ہے اسے  بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ٹھیک نہیں  جا رہے ۔اوسط مصری عوام شدید  مشکلات سے دو چار  ہیں۔ دوسری جانب مصر افریقہ میں داخلی تنازعات سے نبرد آزما ہے اور سوڈان اس ضمن میں سرکردہ ممالک میں سے ایک ہے۔ ایتھوپیا کی تجاوزات کی وجہ سے مصر کی آبی سلامتی کو بھی نہدا ڈیم  کےباعث خطرہ لاحق ہے۔ اگرچہ غزہ کے بارے میں اسرائیل کے عزائم واضح ہیں، غزہ کے باشندوں کو جزیرہ  سینامیں ملک بدر کرنے سے مصر کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔

اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصر کو ترکیہ  کی دوستی اور حکمت عملی  شراکت داری کی شدید ضرورت ہے۔ اس طرح  ترکیہ بھی مصر کے لیے ایک اہم شراکت دار ہے۔اس میں افریقہ کے لیے گیٹ وے اور مشرقی بحیرہ روم اور لیبیا میں  سیاست کے لیے ایک عظیم اتحادی بننے کی صلاحیت ہے۔ دونوں ممالک درحقیقت تجارتی اور جغرافیائی سیاسی مفادات کے لحاظ سے بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

لہذا تاریخی تعلقات، لوگوں کے درمیان ہمدردی اور مشترکہ مفادات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو دوبارہ اسٹریٹجک شراکت داری کی سطح پر لے جانے کے لیے ایک اہم عمل انگیز ثابت ہوں گے۔  ایسا   دکھتا ہے کہ صدر  ایردوان کا دورہ  مصر  اس نقطہ نظر کو ٹھوس   حیثیت دلائے گا۔



متعللقہ خبریں