ہماری بہادر عورتیں۔06

سامعہ جاہد مورقایا ترکیہ کی پہلی کار ریسر اور چیمپین ہے

2098870
ہماری بہادر عورتیں۔06

میں اور میری سہیلی نیل سبز مخملیں گھاس پر لیٹی شام کے اوّلین دھندلکے میں آسمان پر پھیلے  ستاروں کو دیکھ رہی تھیں۔ یہ ہماری مخصوص جگہ تھی۔ گاہے بگاہے ہم  ایک دوسرے کا حال احوال جاننے کے لئے شہر کے شور و غُل سے دُور  اس پُر سکون مقام پر ملتی  تھیں۔ آج بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔

گہری ہوتی شام کی اس خاموشی میں ، میں نے آسمان پر نگاہیں جمائے نیل سے پوچھا تم مستقبل میں کیا بننا چاہتی ہو۔ نیل نے ایک لمحے کا توّقف  کئے بغیر کہا کہ "طِب پڑھوں گی اور ڈاکٹر بنوں گی"۔ پھر اس نے سر میری طرف موڑا اور کہا کہ "تم کیا بننا چاہتی ہو لیلیٰ؟"

 

میری خاموشی کو دیکھ کر نیل نے کہا تمہارا ذہن کسی اُلجھن میں ہے۔ چلو بتاو کیا بات ہے؟ میں نے اسی طرح ستاروں پر نگاہیں جمائے ہوئے کہا کہ" میں سالوں سے گرافک ڈیزائنر  بننے کے خواب دیکھ رہی ہوں لیکن میرا پورا خاندان چاہتا ہے کہ میں دانتوں کی ڈاکٹر بنوں۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ میرا سارا خاندان ڈینٹسٹ ہے"۔ نیل  نے فوراً کہا کہ "لو یہ بھی کوئی بات ہے۔ یقیناً تمہیں وہی بننا چاہیے جو تم چاہتی ہو۔ یہ زندگی تمہاری زندگی ہے۔ اگر تم دوسروں کی خواہشوں کو اپنے رجحان پر فوقیت دیتی رہی تو بہت مشکل ہو جائے گی"۔

 

میں نے سوچا "نیل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ کیا میرے اندیشے بے وجہ ہیں؟ نیل اپنے دھیان میں بول رہی تھی۔ کہنے لگی دیکھو میں  ٹیلی فون سے دیکھ رہی ہوں۔ دیکھو میں نے  پیش رو ترک عورتیں لکھا ہے  اور کسی بھی نام کو کلک کر رہی ہوں۔ میری پیاری سہیلی اصل میں  تمہیں اس وقت کسی رہبر کی ضرورت ہے جو تمہاری ہمّت بندھائے۔ لو اسے دیکھو  یہ ہے "سمعیہ جاہد مورقایا"۔

 

سامعہ جاہد مورقایا ترکیہ کی پہلی کار ریسر اور چیمپین ہے۔  سامعہ 1897 میں پیدا ہوئی اور ایک عالمِ دین  کی بیٹی ہونے کے باوجود اس نے جدید تعلیم حاصل کی۔ اس نے   یدی قولے جرمن اسکول سے پرائمری تعلیم حاصل کی۔ 1922 میں اس دور کے موسیقی کے اسکول دارالالہان سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد  سامعہ موسیقی کے آلے 'کمانچہ  'کی استانی بن گئی۔ موسیقی کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز اس کی توجہ کو بے حد کھینچتی تھی اور وہ چیز تھی اس دور میں ابھی نئی نئی سڑکوں پر  نکلنے والی گاڑیاں ۔

 

گاڑیوں سے اس دلچسپی کے باعث وہ پہلی ترک عورت تھی جس نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا۔ سامعہ کا شوہر برہان جاہد مور قایا ایک مصّنف تھا۔ اس نے بھی اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی کی اور 1923 میں اس کے لئے ایک گاڑی خریدی۔

 

یقیناً اس دور کے معاشرے کے لئے عورت کا گاڑی چلانا  ایک غیر معمولی بات تھی لہٰذا لوگوں نے سامعہ کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک عورت کا گاڑی چلانا "شیطانی حرکت" ہے لہٰذا عورتوں  کو " گاڑی ہرگز " نہیں چلانی چاہیے۔

ان سب چہ میگوئیوں کے باوجود سامعہ نے گاڑی چلانا جاری رکھا اور 1930 میں  ایک کار ریس میں حصّہ لیا۔ اس طرح وہ پہلی ترک کار ریسر بھی بن گئی۔

 

1931 میں اس نے استنبول میں 'اشتیے۔ مسلک ' شاہراہ پر کروائی گئی ریس میں نام درج کروایا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ریس  میں دوسرا درجہ حاصل کرنے والے ریسر 'وہبی بے' نے فیصلے پر اعتراض کیا۔ وہبی کا کہنا تھا کہ "ریس کی شرائط کی پابندی نہیں کی گئی۔ اگر شرائط کی پابندی کر کے کسی عورت ریسر کو ریس میں شامل نہ کیا جاتا تو اوّل درجہ میرا ہونا تھا"۔ اس اعتراض کے ساتھ وہبی بے نے مطالبہ کیا کہ ٹرافی انہیں دی جائے۔ مسئلہ عدالت تک جا پہنچا اور عدالت نے سامعہ جاہد مور قایا کو ٹرافی کا حقدار قرار دے دیا۔ اس طرح وہ ترکیہ کی پہلی خاتون کار ریسر بن گئی۔ اگلے سال کی ریس میں بھی سامعہ نے یہ اعزا برقرار رکھا۔

 

نیل نہ کہا "دیکھا تم نے کیسی کیسی باہمّت عورتیں ہیں ہماری ملّت کی"۔ اس وقت تو میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اچانک ہمیں احساس ہوا کہ بہت وقت گزر چُکا ہے اور گھر پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہو جائے گی۔ ہم اپنی اشیاء اٹھا کر فوراً بس اسٹاپ کی طرف بھاگیں۔ میں نے نیل کو  بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ گھر  پہنچنے پر ہم نے سب کو سلام کیا اور ہاتھ دھو کر  فوراً کھانے کی میز پر پہنچ گئیں۔

 

کھانے کی میز پر ماحول نہایت پُر سکون تھا۔ گرما گرم سُوپ  کا لُطف لیتے ہوئے میرے بابا جان نے اچانک سوال کر ڈالا۔۔۔ لڑکیو کیا پروگرام ہے؟ یہ تم لوگوں کا آخری سال ہے، کوئی فیصلہ کیا ہے آپ دونوں نے کہ کیا بننا ہے؟  ہماری لیلیٰ نے اپنے مستقبل کے منصوبے کے بارے میں ابھی تک ہمیں  کچھ نہیں بتایا"۔ نیل نے مجھے آنکھوں کے اشارے سے کہا کہ "یہی موقع ہے دِل کی بات کہہ دو"۔

 

اس وقت میں صرف نیل کو ہی نہیں اس پیچھے ترکیہ کی پہلی کار ریسر سامعہ جاہد مورقایا کو بھی دیکھ رہی تھی۔  پھر میں فوراً اپنے بابا کی طرف پلٹی اور کہا "باباجان میں دانتوں کی ڈاکٹر نہیں گرافک ڈیزائنر بننا چاہتی ہوں"۔ میری توقع کے بالکل برعکس میرے بابا جان مسکرائے اور سُوپ کا چمچ پیالی میں رکھتے ہوئے کہا بیٹی جیسے تمہاری خوشی ۔ میں اور سب گھر والے ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں"۔ میرا دل ایک دم خوشی اور احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گیا اور میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے باپ کا شکریہ ادا کیا۔

 

میں نے دل ہی دل میں سامعہ جاہد مورقایا کا اور ان تمام عورتوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے نہایت جرات مندی سے اپنے بعد آنے والے عورتوں کے لئے نئے راستے کھولے اور ایک مثال بن گئیں۔



متعللقہ خبریں