تجزیہ 05

عراق اور شام میں امریکی فوجی اڈوں پر حملوں میں جانی نقصان کے بعد امریکہ کی ممکنہ حکمتِ عملی

2096855
تجزیہ 05

عراق، شام اور اردن کی مثلث میں  ایک سٹریٹجک حیثیت کے حامل امریکی بیس ٹاور 22 کوکامی کازے ڈرون کا نشانہ بنایا گیا  جس میں  کم از کم 3 امریکی فوجی ہلاک اور 35 زخمی ہوئے۔ امریکہ کو چونکا دینے والے اس حملے کے فاعل کے طور پر عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کی طرف سے  تشکیل دیا گیا  ایک اسلامی مزاحمت  ڈھانچہ پیش پیش ہے۔اگرچہ بائیڈن کو حملے کے بعد کارروائی کے طریقہ کار کا انتخاب کرنے اور اس کا جواب دینے میں دشواری کا سامنا ہے،  تو  مشرق وسطیٰ میں امریکہ-ایران اور ان کے اتحادیوں  کے شامل ہونے  والی کسی عظیم جنگ کے  چھڑنے یا نہ چھڑنے کی غیر  یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر ۔۔۔

سات اکتوبر کو طوفانِ اقصی کے ساتھ شروع ہونے والے  اور اسرائیل کے غزہ میں نسل کشی کی سطح کے حملوں کے برخلاف  ایران اور اس کے پراکسی عناصر کی طرف سے شروع کیے گئے تصادم  نے ، ان واقعات کے کسی علاقائی جنگ  کی ماہیت اختیار کرنے  یا نہ کرنے کے خدشات  نے جنم لیا تھا۔ تاہم، ایران میں حزب اللہ اور دیگر عراقی شیعہ گروپوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تنازعات زیادہ کنٹرول کے ساتھ جاری رہیں۔ حتیٰ انہوں نے وقتاً فوقتاً اسرائیل کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا ’’سٹریٹیجک تحمل‘‘ اور کنٹرول   کے ساتھ جواب دینے کو ترجیح دی۔ اس کے استثنیٰ کے طور پر یمن کی انصاراللہ تحریک  اور  حوثیوں کو بیان کیا  جا سکتا ہے۔ بحیرہ احمر اور باب المندب کو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں کے لیے بند کرنے کا مطلب کشیدگی میں اضافہ کرنا  تھا اور امریکہ نے برطانیہ کے تعاون سے یمن کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کر دیں۔

تا ہم   تازہ واقع اور امریکہ  کے  فوجی اڈے  کو عراق، شام اور اردن کی مثلث  کی طرف سے  ہدف بنایا  جانا ایک  نئی چنگاری کا مفہوم رکھتا ہے۔  اس سے قبل  عراق اور شام    میں  تقریباً 200  حملے کیے گئے،   لیکن امریکی  فوجی اڈوں پر زیادہ تر علامتی  حملے ہی کیے گئے تھے اور  یہ محض امریکہ کو  مشکلات سے دو چار  کرنے کی چالیں تھیں ، لیکن اب  امریکہ  فوجیوں کو براہ راست قتل کیا گیا ہے۔

بلاشبہ اب کے بعد بائیڈن فیصلہ کریں گے کہ اس عمل اور ان کنٹرول شدہ تنازعات کو اب سے  کس شکل میں  ڈھالا جائے گا۔ وہ امریکی عوام بالخصوص ریپبلکنز کی طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہیں  اور ایسے مطالبات جن میں براہ راست ایران کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے  پر بحث گرم ہے، لیکن عنقریب  انتخابی  عمل  کی طرف بڑھنے والے ملک میں ایران کےخلاف جنگ چھیڑنے کا  فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ مشرق وسطیٰ اور  یقیناً امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو  خطرے میں ڈالنے والے حالات کے جنم لینے کا موجب بنے گا۔

 لگتا ہے کہ بائیڈن کہیں زیادہ محدود سطح کی سزا کے آپشن پر   غور کر رہے ہیں،   اس طرح  کمزور نہ دکھتے ہوئے  اپنی  رائے عامہ کے سامنے  کچھ پیش  کریں گے تو  ایران کے خلاف   مزید حملوں سے باز  رہنے کا انتباہ دینے والی کوئی کارروائی  کی جائیگی۔ زیادہ امکان ہے کہ ایرانی عناصر اور ان کے پراکسیز عراق اور شام میں فضائی کارروائیوں کا ہدف ہوں گے۔ لہذا اس وقت کسی بڑی جنگ کا امکان  کچھ  زیادہ نہیں دکھتا۔ تاہم جب تک غزہ پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اور قتل عام جاری رہے گا، مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی امن کے ماحول میں  نہیں رہ سکے گا۔ اس میں امریکہ اور اس کے اتحادی بھی شامل ہیں۔



متعللقہ خبریں