تجزیہ 01

سال 2023 کے تنازعات کے سن 2024 پر ممکنہ اثرات پر ایک جائزہ

2084934
تجزیہ 01

ہم سال 2024 میں داخل ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے خطے میں مسائل اور جنگوں  نے  2023 سے ہمیں اسیر بنا رکھا ہے۔ ایک جانب روس۔ یوکرین میں تیزی آ رہی ہے تو دوسری جانب  اسرائیل کا غزہ پر قبضہ اور قتل عام جاری ہے۔ ایک طرف، حوثیوں کی جانب سے باب المندب اور بحیرہ احمر کی بندش اور امریکی مداخلت کی جستجو  جوں کی توں  ہے۔ ادھرسوڈان میں خانہ جنگی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی  ہے۔ 2023 کے پہلے دنوں نے ایک ایسے سال کی پیشین گوئی کی تھی جس میں علاقائی معمولات کی بحالی  دوبارہ سے نفع۔ نفع  کی مفاہمت  اور سفارت کاری کے  پیش پیش  ہونے  کا تاثر ملا تھا تو  اب ہمارے سامنے  کہیں زیادہ مایوس کن صورتحال  ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

2024 کے پہلے دن مشرق وسطیٰ ایک بار پھر خون کی  ندی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کا غاصبانہ آپریشن اور قتل عام جاری ہے۔ 22 ہزار  انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ہر گزرتے دن مزید سینکڑوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔مغربی ممالک بڑبڑانے کے ساتھ ساتھ  اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اسرائیلی حکام نے دنیا کی نظروں کے  سامنے اب غزہ کو کس طرح  خالی کرانے کے حوالے سے بیانات دینے شروع کر دیے ہیں۔حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں طاقت کے بے دریغی  سے استعمال  کے باوجود مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل واضح طور پر جنگ کو وسعت دینے کے لیے لاپرواہی سے قدم اٹھا رہا ہے۔ حال ہی میں، ترک خفیہ ایجنسی  نے جامع کاروائیاں کیں جس سے ترکیہ میں موساد کی سرگرمیوں اور جاسوسی نیٹ ورک کو بڑا دھچکا لگا، جب کہ اسرائیلی فضائیہ نے 2006 کے بعد پہلی بار بیروت پر بمباری کرنے اور حماس کی ایک اہم شخصیت کو ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، 3 جنوری کو ایران میں قاسم سلیمانی کے لیے منعقدہ   برسی کے موقع پریکے بعد دیگرے بم دھماکے ہوئے،  جن میں تقریباً ایک سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسرائیل نے چند روز قبل شام میں ایک اہم ایرانی جنرل کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔یہ عمل واضح طور پر اس چیز کا عکاس ہے کہ  اسرائیل، جنگ کو علاقائی  ماہیت دلاتے ہوئے  امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو ایران کے خلاف فوجی مداخلت پر مجبور کرنا اور اکسانا چاہتا  ہے۔ دوسری جانب ایران نے ابھی تک باب المندب اور بحیرہ احمر کو بند کرنے کی حوثیوں کی کوششوں کے علاوہ کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔

حالیہ واقعات کے بعد  اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا کہ حزب اللہ شمال میں اپنی موجودہ محدود فوجی  سرگرمیوں کو وسعت دیتا ہے کہ نہیں۔  تا ہم  چاہے سست روی سے ہی کیوں نہ ہو  اسرائیل اور فلسطین تنازع  کے آہستہ آہستہ پھیلنے کا امکان  موجود ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایک اور محاذ سوڈان میں ہے۔ بدقسمتی سے وہاں خانہ جنگی جاری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کچھ ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات جلتی  آگ پر تیل  ڈال رہے ہیں۔

شمال میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات ایک بار پھر بڑھ گئے ہیں۔ خاص طور پر روس کی خواہش ہے کہ وہ یوکرین کی حمایت میں مغربی ممالک کے ترددکا فائدہ اٹھا کر اس عمل کو اپنے حق میں کرے۔     

امریکی کانگریس کی طرف سے یوکرین کو دی جانے والی امداد کی راہ میں رکاوٹ اور مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کو اپنی موجودہ دفاعی صنعت کی پیداوار میں مؤثر طریقے سے مدد دینے میں ناکامی نے روس کے حق میں توازن بدلنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں، بلاشبہ، غزہ  تنازعے کی  اہمیت نے یوکرین کی امداد کے عمل کو پس پردہ ڈال دیا ہے۔ مغرب کے لیے فیصلہ کن لمحہ قریب آ رہا ہے، یہ  اپنی حمایت کو زیادہ بامعنی سطح تک بڑھائے گا اور روسی جارحیت میں توازن پیدا کرے گا، یا روس میدان کو اپنے حق میں  کرتے ہوئے  یوکرین کو   ہتھیار  ڈالنے پر مجبور کرنا  شروع کر دے گا۔

2023 سے وراثت میں ملنے والے بڑے تنازعات کے علاقے بدستور موجود ہیں، شمالی اور مشرق وسطیٰ دونوں میں موجودہ تنازعات کے بڑھنے اور علاقائی سطح تک پہنچنے کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔  افسوس اس وقت 2024 کے بارے میں پرامید باتیں کہنا ممکن نہیں لگتا۔

 



متعللقہ خبریں