ہماری بہادر عورتیں۔01

آج ہمارا موضوع ہیں، ترک تاریخ کی نامور خواتین میں سے پہلی خآتون پائلٹ، "صبیحہ گیوکچن"

2082255
ہماری بہادر عورتیں۔01

ایک دن کمرہ جماعت میں استاد نے ننھی 'سماء' سے پوچھا "بڑی ہو کر تم کیا بننا چاہتی ہو" ابھی سوال استاد کے منہ میں ہی تھا کہ جگمگاتی آنکھوں والی ننھی  سماء نے ایک دم سے کہا "میں پائلٹ بننا چاہتی ہوں"۔  اس کا جوش و خروش اس کی ہر حرکت سے عیاں تھا۔ ابھی اس کی عمر محض 6 سال تھی لیکن جب سے اس نے جہاز کا سفر کیا تھا اس کے دل میں پائلٹ بننے کی آرزو گھر کر گئی تھی۔

 

گاوں میں موسم خوبصورت ہوتا تو وہ دیگر بچوں کے ہمراہ گھاس پر لیٹ کر دیر تک آسمان پر اڑتے بادلوں کو دیکھتی رہتی۔ دوسرے بچے بادلوں کے ٹکڑوں کو کسی نہ کسی چیز سے مشابہہ کرتے لیکن وہ اڑتے پرندوں کی حرکات پر غور کرتی یا کسی طیارے کو دیکھنے کی آرزو مند رہتی تھی۔ ایک دن وہ خود بھی پرندوں کی طرح اڑنا چاہتی تھی۔

 

آج اس کے جوش و خروش کا سبب اسکول کی ایک پریزنٹیشن تھی۔ آج اس نے  اور اس کے دیگر دوستوں نے  مستقبل میں اپنے اپنے  پیشے کے بارے میں بتانا تھا۔ یوں تو اسکول کے اساتذہ، بچے اور دیگر عملہ سماء کی پائلٹ بننے کی خواہش سے باخبر تھے لیکن حالات سماء کی توقعات سے بالکل مختلف شکل میں تبدیل ہو گئے۔

 

جب سماء ہاتھ میں طیارے کا چھوٹا سا ماڈل پکڑے اپنے ساتھیوں کو اپنی خواہش کے بارے میں بتا رہی تھی تو جماعت کے بچوں میں سے ایک نے کہا کہ " لڑکیاں تو پائلٹ نہیں بن سکتیں"۔ یہ سُننا تھا کی ایک دم بچوں کے درمیان بحث چھِڑ گئی۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ "کیوں نہیں ؟ لڑکیاں بھی پائلٹ بن سکتی ہیں" تو  کوئی  کہہ رہا تھا کہ " میں نے تو کبھی کسی  لڑکی کو پائلٹ بنتے  نہیں دیکھا"۔ استاد نے بچوں کو پُرسکون کرنے اور یہ بتانے کی پوری کوشش کی کہ ہر کوئی ہر پیشہ اختیار کر سکتا ہے لیکن یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔

 

اس اعتراض نے سماء کو مبہوت کر دیا وہ خاموشی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو سُن رہی تھی۔  ایک آنسو اس کی آنکھ   سے نکلا اور رخسار  پر بہتا چلا گیا۔

 

گھر جانے کے بعد بھی سماء کی خاموشی نہ ٹوٹی۔ اس کی ماں کو پتا چل گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور اس نے بیٹی سے پوچھا بھی لیکن کوئی جواب نہ ملنے پر گھر کے کام کاج میں لگ گئی۔

 

کچھ دیر بعد جب  سماء کی نانی نے اسے جہاز کے ماڈل پر نگاہیں گاڑے دیکھا تو نہایت شفقت سے اس کے پاس آئی اور کہا کہ تمہیں پتہ ہے ایک زمانے میں صبیحہ گیوچن نام کی ایک پائلٹ تھی۔ وہ ترکیہ کی پہلی خاتون پائلٹ تھی۔ یہی نہیں وہ دنیا کی بھی پہلی جنگی پائلٹ اور ہمارے ملک کا فخر تھی۔

 

یہ سُننا تھا کہ سماء خوشی سے  اپنی نانی سے لپٹ گئی اور اسے کہا کہ نانی اماں کیا آپ مجھے صبیحہ گیوچن کے بارے میں اور بھی کچھ بتا سکتی ہیں؟ نانی نے مسکرا کر جواب دیا کیوں نہیں میری پیاری بیٹی۔

 

صبیحہ 1913 میں ضلع بُرصا میں پیدا ہوئی۔ وہ بھی تمہاری طرح بہت پُر عزم اور حوصلے والی تھی۔ ترکیہ کے پہلے صدر مصطفیٰ  کمال اتاترک کے دورہ بُرصا کے وقت صبیحہ کی عمر محض 12 سال تھی۔ جب اس نے  مصطفیٰ کمال کو دیکھا تو ہمت کر کے ان کے قریب گئی اور ایک بہت دلچسپ خواہش ظاہر کی۔

 

نانی اماّں نے پوچھا تمہیں پتا ہے سماء اس نے مصطفیٰ کمال سے کیا مانگا؟ سماء نے جوش سے کہا "جہاز میں بیٹھنا چاہا ہو گا" نانی اماں نے ہنستے ہوئے کہا نہیں اس نے مصطفیٰ کمال سے کہا کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ بہت کم سنی میں ماں باپ سے محرومی کی وجہ سے صبیحہ نہایت مشکل حالات میں زندگی گزار رہی تھی۔ اتاترک نے اس پُر عزم لڑکی کو تعلیم دِلوانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہی نہیں صبیحہ کے بھائی کی اجازت سے اسے اپنی لے پالک بیٹی بھی بنا لیا۔ اس طرح صبیحہ کی خواہش ایسے  پوری ہوئی  کہ جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

 

سماء سے صبر نہ ہوا اور نہایت بے صبری سے کہنے لگی   کہ نانی اماں وہ پائلٹ کیسے بن گئی پہلے مجھے یہ بتائیں۔ نانی نے کہا کہ  بتاتی ہوں چھوٹی خانم پہلے یہ جان لو کہ یہ کام صبر والے کام ہیں۔ تم بھی صبر اور متانت سیکھو تو اچھا ہو گا۔

 

اس کے بعد نانی امّاں نے دوبارہ بتانا شروع کر دیا۔ صبیحہ گیوکچن کو آسمانوں کی لڑکی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ تم مستقبل میں کیا بنتی ہو اور کس نام سے یاد کی جاتی ہو۔ اتاترک کے پاس آنے کے بعد صبیحہ گیوکچن کی زندگی بالکل تبدیل ہو گئی۔ جب اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کر لی تو اتاترک نے اسے گیوچن کا سر نیم دیا۔ اس دور میں ابھی سرنیم کا رواج نہیں تھا۔1934 میں سر نیم کا قانون منظور ہوا تو تمام شہریوں کو سرنیم دیا گیا۔ جب صبیحہ کو گیوکچن کا سر نیم مِلا تو ابھی اس نے پائلٹ کی تعلیم شروع نہیں کی تھی۔

 

سماء نے نہایت حیرانی سے پوچھا یہ کیسے ہوا؟ گیوکچن  کا مطلب تو "آسمان  والی" کے ہیں۔ پائلٹ بننے سے پہلے اسے "آسمان    والی" کا سرنیم کیسے مِل گیا؟

نانی نے اپنی نواسی کے بال سہلاتے ہوئے کہا  کہ اسے اب تم قسمت کہو یا پھر مصطفیٰ کمال اتاترک  کی  باریک بینی ۔

 

اس دن کے بعد سے ننھی سماء نے اپنی نانی سے صبیحہ گیوکچن کے بارے میں بہت سی کہانیاں سُنیں۔ اب وہ جانتی تھی کہ  1935 میں صبیحہ گیوکچن نے اتاترک کے ہمراہ  فضائی مظاہرہ دیکھا اور  اپنے معنوی والد سے کہا کہ کاش  اس پائلٹ کی جگہ یہ جہاز میں اڑا رہی ہوتی۔ اتاترک کو صبیحہ کا یہ حوصلہ بہت پسند آیا لہٰذا انہوں نے پائلٹ بننے کے لئے صبیحہ کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی۔

 

سماء کو یہ بھی معلوم تھا کہ صبیحہ گیوکچن کو 4 مئی 1935 پہلی طالبہ کی حیثیت سے ترک سول ایوی ایشن اسکول میں داخلہ مِلا۔ 1937 میں ایک فوجی آپریشن میں شرکت کے بعد  انہیں دنیا کی پہلی محارب پائلٹ کا عنوان مِلا۔ 1996 میں وہ امریکہ میں اپنا نام عالمی ہوا بازی کی تاریخ میں رقم کروانے والے 20 ہوا بازوں میں شامل ہو گئیں۔

 

نانی امّاں سے سُنی کہانیوں کے بعد سماء کی پائلٹ بننے کی خواہش اور بھی مضبوط ہو گئی تھی۔ اب وہ ایک نوجوان لڑکی تھی اور آج کا دن اس کے لئے بہت اہم تھا کیونکہ آج بحیثیت جیٹ پائلٹ کے اس کی تعلیم کا پہلا دن تھا۔

 

صبیحہ گیوکچن کے بارے میں سماء کو متاثر کرنے والی سب سے اہم معلومات میں سے ایک گیوکچن کا 1996 میں 82 سال کی عمر میں آخری بار پرواز کرنا تھا۔

 

آج ان کا نام ایک ہوائی اڈّے کو دیا گیا ہے۔ 2001 میں استنبول کے اناطولیہ درّے پر واقع  صبیحہ گیوکچن ہوائی اڈّے کا افتتاح ہوا۔

 

آج جیٹ پائلٹ کی پہلی کلاس میں سماء آدھا گھنٹہ پہلے سے آئی ہوئی تھی۔ اس کے خیال میں دیر سے آنے کی بجائے پہلے آنا  بہتر تھا۔ اس دوران ایک نوجوان اس کے قریب آیا اور اس سے پوچھا معاف کیجیے گا کیا آپ بھی اس کلاس کی طالبہ ہیں۔ سماء نے مسکر اکر کہا جی ہاں۔ اس پر نوجوان نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا میرا نام اوعور ہے آپ سے مِل کر خوشی ہوئی۔ سماء نے بھی اپنا تعارف کروا۔ کچھ توقف کے بعد نوجوان نے کہا کہ سماء خانم مجھے آپ سے ایک معذرت کرنا ہے۔ میں نے آپ کو دیکھتے ہی پہچان لیا ہے۔ ہو سکتا ہے میں آپ کو یاد نہ ہوں۔ بچپن میں آپ کی پریزنٹیشن کے دوران جس بچے نے کہا تھا کہ لڑکیاں تو پائلٹ نہیں بن سکتیں وہ میں ہوں۔ میں اپنی اس بات پر معذرت چاہتا ہوں اور اس عزم و حوصلے پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 

پہلے تو سماء کو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا لیکن اب وقت بہت بدل چُکا تھا اور وہ اپنے خواب کو حقیقت بنانے کے راستے پر  پہلاقدم رکھ چُکی تھی۔



متعللقہ خبریں