تجزیہ 70

سال 2023 میں ترکیہ کی خارجہ پالیسیوں کا جائزہ اور سن 2024 میں ان کے ممکنہ اثرات

2082405
تجزیہ 70

اگر 7 اکتوبر کے واقعات اور ان کے بعد کے واقعات کو خارج کر دیا جائے تو ترک  خارجہ پالیسی کے لحاظ سے 2023 کو نسبتاً پُرسکون سال کے طور پر بیان کرنا ممکن ہوتا۔  ماہِ مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سے جاری  حالات کے معمول پر آنے کے رحجان نے  خارجہ پالیسی کی عمومی روش کے تعین میں اہم کردار ادا کیا۔ حل طلب مسائل کے باوجود ممکنہ تنازعات کو کم  سے کم کرنا اور مشترکہ مفادات کو اولیت  دینا خارجہ پالیسی کا بنیادی ایجنڈا تھا۔ انتخابات کے بعد کے عرصے  میں صدر رجب طیب ایردوان نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو  مرکزی حیثیت  اور معیشت کو اولیت کے  توجہ مرکز بنانے والی  ایک علاقائی خارجہ پالیسی کو ترجیح دی۔

شام سے  تعلق رکھنے  والے سیکورٹی خطرات کو کم کرنے کے لیے اسد حکومت کے ساتھ وزارتی سطح کے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا، اسی طرح  اسرائیل اور مصر کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے گئے ۔ قاراباغ کی آزادی میں آذربائیجان کے لیے ایردوان کی بھرپور حمایت نے 2023 میں  ترکیہ کی  جیو پولیٹیکل  اداکار  کی حیثیت کو مستحکم کیا۔

ایردوان نے علاوہ ازیں مغربی ممالک کے ساتھ ترکیہ کے تعلقات کو بحال کرنے کی تگ و دو کی،ترک-امریکی تعلقات میں ایک نئے  روڈ میپ وضع کرنے کا ہدف بنایا  اور یوکرین کے تنازع پر متوازن موقف کا مظاہرہ  کیا۔ 2023 میں  خارجہ پالیسی میں ایک اہم قدم کا اشارہ دینے والا ترکیہ-یونان سربراہی اجلاس سر انجام  پایا۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ۔۔۔

ترکیہ۔ امریکہ تعلقات، حل طلب بعض مسائل  کی بنا پر سال 2024 میں بھی  ایجنڈے کو مصروف رکھنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ان میں  سر فہرست  PKK دہشت گرد تنظیم کی شامی شاخ YPG کے لیے امریکہ کی مسلسل حمایت ہے۔ خاص طور پر، امریکہ کی شام  حکمتِ عملی میں کوئی خاص تبدیلی  غیر متوقع ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمال مشرقی شام میں YPG کی حمایت جاری رہے گی۔ یہ حمایت ترکیہ کے لیے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے کیونکہ YPG اپنی فوجی صلاحیتوں اور بین الاقوامی نیٹ ورکس کو مضبوط بنا رہی ہے۔ حالیہ اقدامات، جیسے کہ نام نہاد نئے آئین کا نفاذ جس میں خطے کا نام تبدیل کر کے شمالی شام کی جمہوری انتظامیہ رکھا گیا ہے، ترکیہ کی کارروائی کی عجلت پر زور دیتے ہیں۔ 2024 میں YPG کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی ترکیہ کے لیے  مزید کسی  وسیع  حکمت عملی مسئلے کی ماہیت اختیار کر  سکتی ہے۔ مزید برآں، ترکیہ۔ امریکہ تعلقات کے دیگر پہلو بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آنے والا سال  کافی گہما گہمی کا سال ثابت ہو  گا۔ F-16 کی فروخت میں مثبت پیش رفت اور سویڈن کی نیٹو رکنیت کے حوالے سے ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی کی طرف سے لیا گیا مثبت فیصلہ ترک۔ امریکی تعلقات کی عسکری اور دفاعی جہتوںمیں مثبت اثرات پیدا  کر سکتا ہے۔

تاہم، اسرائیل کی غزہ جنگ اور اس معاملے پر ترکیہ کا موقف جیسے محرکات ،  ترک۔ امریکہ تعلقات پر منفی اثر ات مرتب کر  سکتے ہیں۔ مستقبل قریب میں اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان مفاہمت کا امکان بہت معدوم  نظر آتا ہے اور یہ صورتحال  ترک امریکہ تعلقات کو منفی لحاظ سے متاثر کر سکتی ہے۔

ترکیہ-یورپ تعلقات کے لحاظ سے، 2024 میں 2023 میں حاصل کی گئی مثبت  فضا کے  جاری رہنے کی  امید ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین کے پیمانے پر بحالی نظر نہ آئے، لیکن انتخابات کے بعد کی فضا برقرار رہنے کا امکان ہے۔ جاری یوکرین  تنازعہ ترکیہ۔ یورپ تعلقات پر نمایاں اثرات کا حامل  ہے اور تنازعہ کی روش  میں غیر یقینی کی صورتحال کو مد نظر رکھنے سے  یہ  ترکیہ سے اسٹریٹجک  موْقف کا مطالبہ کرتا ہے۔ سیکورٹی خدشات، خاص طور پر نقل مکانی، تعاون کی وجوہات کو مضبوط کرتی ہے، اقتصادی باہمی انحصار اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ 2024 میں ترکیہ اور یورپ کے تعلقات مستحکم ہوں گے۔ ترکیہ اور یونان کے درمیان مفاہمت اور مشرقی بحیرہ روم کے توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے تعاون سے ترکیہ اور یورپ کے تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ تاہم، یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کا عروج قومی اور خارجہ پالیسیوں کو متاثر کر سکتا ہے، جس سے یورپی یونین کے اندر ترکیہ مخالف جذبات جنم لے سکتے ہیں۔ اس لیے اس میدان میں ہونے والی پیش رفت پر بغور نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اسوقت جاری یوکرین  جنگ 2024 میں سب سے اہم بین الاقوامی مسائل میں سے ایک ہونے  کی سطح کو برقرار رکھے  گی اور ترکیہ سے  اس کی قربت اور مفادات کی وجہ سے یہ  ترکیہ کو نمایاں طور پر متاثر کرے گی۔ سب سے اہم سوال  یہ ہے کہ کیا امریکہ اور یورپی ممالک یوکرین کو فوجی امداد کا سلسلہ  جاری رکھیں گے۔ اگرچہ اس امداد کا تسلسل یوکرین کی جنگ  کو جاری رکھنے کی صلاحیت کو یقینی بنائے گا، لیکن امداد میں کٹوتی جنگ کا رخ بدل سکتی ہے اور ممکنہ طور پراس کا پانسہ  روس کی طرف پلٹ سکتا ہے۔ نتیجتاً ترکیہ کی خارجہ پالیسی یوکرین جنگ  کے ممکنہ نتائج سے متاثر ہوگی۔ ہنگری کے دورے کے دوران صدر  ایردوان  کے حالیہ بیانات،   ان کی  روسی صدر ولادیمیر پوتن کی نئی سربراہی ملاقات کے امکان اور  اناج راہداری کے معاہدے جیسے مسائل کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ شام، جنوبی قفقاز، لیبیا اور توانائی کے شعبوں میں روس کے ساتھ ترکیہ کے کثیر جہتی تعلقات کو مدنظر رکھنے سے ، 2024 میں  بھی ترکیہ ۔ روس تعلقات  کے کسی کلیدی  معاملے کی  اہمیت کو برقرار  رکھنے کا کہنا ممکن ہے۔

مشرق وسطیٰ میں معمولات کی واپسی  ترک خارجہ پالیسی کا ایک اہم عنصر رہے گی۔ تاہم، ترکیہ اور خلیجی ممالک کے درمیان "نارملائزیشن" کی اصطلاح  کا مفہوم  بدل سکتا  ہے، جو کہ  اس محاذ پر کسی نئی مصالحت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ترکیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور قطر کو  خاص طور پر دفاعی تعاون میں یکجا  کرنے والا  اورممکنہ طور پر ایک اسٹریٹجک اتحاد کی ماہیت اختیار کرنے والا ایک نیا علاقائی اتفاق رائے جنم لے سکتا ہے۔ اس کے باوجود غزہ کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی سے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا وسیع ماحول پیدا ہو سکتا ہے جو 2024 میں ترکیہ اور پورے خطے کو متاثر کرے گا۔ نتیجے کے طور پر  ترکیہ سمیت  دیگر ممالک غزہ کے حوالے سے اپنی کوششوں میں  تیزی لا سکتے ہیں۔

2024 میں وسطی ایشیا ، ترکیہ کے لیے خاص طور پر ترک ریاستوں کی تنظیم کے فریم ورک کے اندر تعلقات کے حوالے سے ایک منفرد  اور اہم جہت  کا حامل ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ شراکت داری، جس نے ابتدائی طور پر اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کی تھی، کہیں زیادہ   حکمت عملی  سیاسی اقدام میں بدل جائے گی اور ترکیہ کو ایک ایسی خارجہ پالیسی پر گامزن کرے گی جو وسطی ایشیائی مساوات میں اپنی پوزیشن کو محفوظ بنائے۔

مجموعی طور پر، ترکیہ کا سٹریٹیجک  ماحول محرکات اور تنوع سے متصف ہو گا، جس کے نتیجے میں کچھ حد تک محدود علاقائی ماحول پیدا ہو گا جو ترکیہ کے نئے علاقائی اور بین الاقوامی رجحان کے لیے چیلنجز کا باعث بنے گا۔



متعللقہ خبریں