تجزیہ 69

بحیرہ احمر میں حوثیوں کے اسرائیل سے متعلقہ مال بردار بحری جہازوں پر حملے اور ان کے اسرائیل ۔ غزہ اور روس۔ یوکرین جنگ پر اثرات

2079837
تجزیہ 69

جیسے جیسے غزہ میں اسرائیل کا جارحانہ اقدام  ا ور قتل عام اپنے تیسرے مہینے کی طرف بڑھ رہا ہے، غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان  سمیت  علاقائی محرکات اور عالمی سیاست بھی مسلسل متاثر ہو رہی ہے۔ اسرائیل اور اس کا اہم حمایتی  امریکہ ہر گزرتے دن تنہا ہوتے جا رہے ہیں  تو حوثیوں  کی طرف سے  باب المندب اور بحیرہ احمر میں اسرائیلی بندرگاہوں پر سامان لے جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے عمل کے آغاز سے جنگ کے اثرات زیادہ محسوس ہونے لگے ہیں۔ کیونکہ یوکرینی محاذ پرموقع سے فائدہ اٹھا کر روس  اپنے عزائم میں  فوائد  حاصل کر رہا  ہے، مغربی بلاک میں بیک وقت دو تنازعات کی حمایت کرنے کے موقف  کے حوالے سے  اہم سوالات  نے جنم لیا ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ  ۔۔۔

عالمی نقل و حمل کا تقریباً 11-12 فیصد باب المندب اور بحیرہ احمر کی گزر گاہ سے  سر انجام پاتا ہے۔ اسی طرح تیل کی نقل و حمل بھی اسی راہداری کے ذریعے کی جاتی ہے۔ خاص طور پر، یورپ اور ایشیا کے درمیان قریب  راستہ یہی ہے اور اسی کے مطابق لاجسٹک انفراسٹرکچر  بنایا  گیا ہے۔ تاہم غزہ میں اسرائیل کے قتل عام کے رد عمل کے طور پر یمن میں مقیم حوثیوں (انصار اللہ موومنٹ) نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے ہر جہاز کو نشانہ بنانے کے بیان کے بعد  یکے بعد دیگرے  بڑے جہازوں کے ہدف  بننے کا مشاہدہ ہونے لگا۔حوثی کبھی ان  بحری جہازوں کو کامیکازے  ڈرونز اور گائیڈڈ میزائلوں سے نشانہ بناتے ہیں اور کبھی براہ راست  ان پر چڑھ کر   قبضہ کر لیتے ہیں۔  جس پر دنیا کی سب سے بڑی لاجسٹک کمپنیوں نے اعلان کیا  ہے کہ وہ اس راہداری  کو استعمال نہیں کریں گی۔ متبادل راستے کے طور پر، کیپ آف گڈ ہوپ کو ترجیح  دی جا رہی ہے تاہم اس سے سامان کی ترسیل  میں کم از کم 2 ہفتوں تک تاخیر ہورہی  ہے اور اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں یہ اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ تھا، وہیں یہ عالمی تجارت اور یورپ کی سپلائی کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ امریکہ ایک ٹاسک فورس بنا کر اس خطرے کو کم کرنا چاہتا ہے جس میں اسپین، انگلینڈ اور بحرین جیسے ممالک شامل ہیں، لیکن  جیسا کہ حوثیوں کے رہنما عبدالمالک الاحوثی کے بیانات  سے ظاہر ہوتا ہے ، حوثیوں اور ان کے سب سے بڑے حمایتی  ایران کا   اس تناظر میں پیچھے قدم ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ممکنہ فضائی کارروائیاں سے  حوثیوں کو روک  سکنے کا احتمال کافی معدوم دکھ رہا ہے۔

بحیرہ احمر میں یہ سب ہو رہا  ہے تو  یوکرین  محاذ پر بھی اہم پیش رفت ہو رہی ہے۔ ایک جانب روس روز بروز اپنے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے تو   یوکرین کو مغرب کی طرف سے وعدہ کردہ امداد نہ پہنچ سکنے کا بھی مشاہدہ ہو رہا ہے۔امریکی کانگریس نئی امداد دینے سے گریزاں ہے۔ اسرائیل کو عسکری/سیاسی/معاشی طور پر  حمایت و امداد فراہم کی جا رہی ہے، تو  یوکرین کی مدد کرنے کے لیے مغربی ممالک کو مشکلات کا سامنا  ہے۔ موجودہ صورتحال  بظاہرقابل دوام  نظر نہیں آتی، اس تناظر میں اسرائیل۔ غزہ   اور یوکرین-روس محاذ وں پر  جنگ بندی کے بیانات مزید  طاقت پکڑیں گے۔

تاہم، خاص طور پر نیتن یاہو کی طرف سے آنے والے اشارے مستقل جنگ بندی پرآمادگی  کے حق میں نہ ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہاں پر اسرائیل کی تنہائی اور اسرائیل پر امریکی دباؤ کے جزوی طور پر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں،  تا ہم  یہ کہنا ممکن ہے کہ غزہ میں قتل عام مزید  کچھ عرصے تک جاری رہے گا۔

یوکرین کے لیے موجودہ فوجی میدان کی حقیقت کی بنیاد پر روس کے ساتھ مذاکرات  کرنا ایک آپشن کے طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کہ زیلنسکی انتظامیہ اس تناظر میں  پیش  کردہ  شرائط کو قبول کرے گی یا نہیں۔



متعللقہ خبریں