تجزیہ 68

سال 2023 میں رونما ہنے والے واقعات کی بنیاد پر سال 2024 کے ممکنہ سناریو پر ایک جائزہ

2077199
تجزیہ 68

سن 2023  میں  رونما ہونے والے واقعات نے  سال 2024 کے لیے کثیر تعداد میں محتمل جیو پولیٹیکل اور سٹریٹیجک  سناریو  کو جنم دیا ہے۔ 4 ارب سے زائد  آبادی سسال 2024 میں  انتخابات میں  حصہ لے گی۔امریکہ، روس، برطانیہ، بھارت ، تائیوان اور بنگلہ دیش  میں کلیدی انتخابات پیش پیش  ہوں گے۔ یوکرین، غزہ، تائیوان کے تنازعات ایران کا جوہری پروگرام، مشرق وسطی میں اسرائیل۔ عرب تنازعات کا احتمال  موجود ہے، توانائی کے نرخوں میں غیر یقینی اور موسمی تبدیلیوں سے منسلک غیر متوقع پیش رفت  بین الاقوامی سیاست کو گہرائی سے متاثر کرنے   والے واقعات   کو جنم دے سکتی ہے۔ گزشتہ 24 مہینوں میں 78  تصادم  مکمل  طور پر نئے سرے سے شروع ہوئے ہیں یا   پھر پہلے سے موجود لیکن منجمد ہونے والے تصادم  دوبارہ سےفعال بنے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی نظام   میں تصادم کا ماحول پیدا  کرنے  والے کرداروں  کے نمایاں ترین عناصر میں سے ایک ہے۔

سیتا سیکیورٹی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع کے حوالے سے جائزہ ۔۔۔

نظام میں تبدیلی اور بدلی تاحال اپنی غیر یقینی  کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس معاملے میں امریکہ کی پوزیشن بہت اہم ہے۔ امریکہ کی عالمی پوزیشن کو اس وقت ایک سنگین چیلنج  کا سامناہے۔ عسکری طور پر چین  فی الوقت امریکہ کے ساتھ توازن قائم کرنے  کا مشاہدہ ہوتا ہے تو بھی  عنقریب بعض شعبوں میں  توازن قائم کر سکنے  کا احتمال  بھی  موجود ہے۔  یہ صورتحال چین کو عالمی سطح   کی ایک طاقت  بننے  کا موقع فراہم نہیں  کرے گی تا ہم اپنے خطے میں امریکہ  کے ساتھ توازن قائم کر سکنے، اسے پیچھے  ہٹا سکنے یا  پس قدمی  کرنے  کا ماحول پیدا کر سکنے والی ایک عسکری پوزیشن ہمارے سامنے آتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر 7 اکتوبر کے بعد امریکہ کی فوجی پوزیشن  کے متاثر ہونے کا شدید رجحان تھا۔ جو کہ امریکہ کے فوجی  وجود  کو  خطرے سے دو چار کرنے کی ایک صورتحال کے طور پر  سامنے آیا ہے۔ اقتصادی طور پر امریکہ تاحال سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔یہ  پورے یورپ اور چین سے بھی بڑھ کر ہے۔ تاہم، عالمی اقتصادی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ بہت سی علاقائی اور درمیانے درجے کی طاقتیں، خاص طور پر بھارت، امریکہ کی اقتصادی بالادستی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں۔یہ بھی واضح ہے کہ سفارتی طور پر امریکہ کی نفسیاتی بالا دستی   میں کافی حد تک گراوٹ آئی ہے۔ خاصکر غزہ جنگ کے بعد امریکی  سفارتکاری اپنی ساکھ  کھوتی ہوئی دکھتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کا اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام تشکیل  دینے کا ہدف ناکام ہو گیا ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس نے دوسرے اداکاروں کے  غیر اصولی  موقف اپنانے  کا جواز فراہم کیا ہے۔

ایک اور باقاعدہ  مسئلہ یوکرین میں روس کا جاری قبضہ ہے۔ یوکرین میں روس کے جغرافیائی سیاسی مقاصد میں تاحال  کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ روس یوکرین کو بحیرہ اسود سے   منقطع   ہونےو الی  ایک  بند ریاست میں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ فن لینڈ کی نیٹو رکنیت اور سویڈن کی ممکنہ نیٹو رکنیت کے بعد روس کا یہ ہدف  کافی کلیدی ماہیت اختیار کر چکا  ہے۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں  دکھائی دیتا کہ پوتن یہ ہدف ابھی  اور 2024 میں حاصل کر پائیں گے۔لہذا یوکرین جنگ میں  تبدیل نہ ہونے والا ایک جنگی میدان  عمل میں آچکا ہے۔ دوسرے  الفاظ میں میدان جنگ میں جغرافیائی پوزیشن اور فوجی آپریشنل شدت کے درمیان ایک  نمایاں فرق پیدا ہوا ہے۔آپریشنل شدت کافی بلند ہونے کے باوجود، جغرافیائی سطح پر یعنی میدان  میں کسی قسم کی وسعت  یا پیش رفت کا ذکر نہیں  کیا جا سکتا۔  جو کہ روس۔ یوکرین جنگ میں قابلِ دوام  ایک صورتحال نہیں ہے۔ لہذا  یوکرین کے معاملے میں روس اور یوکرین کے مابین   جھڑپوں کے محرکات   تاحال جاری ہیں۔ ایک  دوسرا معاملہ  مغربی ممالک کا یوکرین سے تعاون ہے۔  یہ اہم سطح کی عسکری امداد فراہم کر رہا ہے تو بھی  یہ فوجی امداد میدانِ جنگ میں  کھیل کا پانسہ بدلنے  میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ بلاشبہ اس امداد  نے یوکرین کے دفاع کو مضبوط کیا ہے ، لیکن اس نے یوکرین کو روس پر فتح حاصل کرنے میں حکمت ِ عملی بالا دستی  فراہم نہیں کی۔ دوسری جانب سفارتی محاذ پر فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور  مستقبل قریب میں بھی ایسی پیش رفت ممکن نظر نہیں آتی۔

موجودہ صورتحال یوکرین کو امن مذاکرات کی بنیاد حاصل کرنے کا موقع فراہم نہیں کر رہی۔ کیونکہ یوکرین کا امن منصوبہ  ابھی بھی  یوکرین کی سرزمین سے روسی فوجیوں کے مکمل انخلاء  کے تصور اور شرط  پر مبنی ہے۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوکرین کی موجودہ صورت حال 2024 میں بھی اسی طرح جاری رہے گی، لیکن امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات یوکرین میں اس عمل کے لیے ایک اہم پیشرفت ہو سکتے ہیں۔روس میں بھی اسی طرح انتخابات منعقد ہوں گے تا ہم ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان  انتخابات میں پوتن کی صدارت برقرار رہے گی، جب تک کوئی قابل ذکر  غیر متوقع صورتحال   ظہور پذیر نہیں  ہوتی اور بلیک سوان  جیسی کوئی پیش رفت  نہیں ہوتی، روس میں اقتدار پوتن کی طاقت کو مستحکم کرتے ہوئے جاری رہے گا۔ دوسری جانب روس۔ یوکرین تعلقات میں کوئی نیا رحجان   جنم لے سکتا ہے۔  ٹرمپ کے انتخابات میں فتح یاب ہونے کی صورت میں   خطہ یورپ کے یوکرین کے معاملے میں کہیں زیادہ خود مختار طریقے سے  حرکات و سکنات کر نے کا احتمال قوی بن  سکتا ہے۔ توقعات کے برعکس، بین الاقوامی سیاست کسی نئے مسابقتی اور تنازعاتی   عمل کا سامنا کر سکتی ہے۔



متعللقہ خبریں