تجزیہ 66

7 اکتوبر کے حماس کے حملے اور اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے ساتھ اس کی ریاستی و اخلاقی کمزوریوں کا پردہ چاک

2071775
تجزیہ 66

اسرائیل اگر غزہ کی جنگ میں فوجی فتح  حاصل کرتا ہے تو بھی  جنگ ہارنے والا  خود ہی ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد غزہ کے خلاف چلائی گئی بھاری جنگی مہم کی وجہ سے، اسرائیل اپنے قیام سے لے کر اب تک کے سب سے بڑے تاریخی موقع کو استعمال نہیں کرسکا یا پھر اس نے استعمال کرنے کو ترجیح نہیں دی۔ آج  اسے 1948 کے بعد کبھی در پیش نہ ہونے والے اپنے وجود کےبحران اور  اپنی حیثیت کے حوالے سے گہرے خدشات کا سامنا ہے۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش  کا مندرجہ بالا  موضوع پر جامع جائزہ۔۔۔

7 اکتوبر کے بعد اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو کئی محاذوں پر شکست سے دو چار ہو چکا ہے اور آنے والے سالوں میں اسے اسی  سے جڑ کر  رہنا پڑے گا۔ 7 اکتوبر کے پہلے اسٹریٹجک نتائج میں سے ایک سیکورٹی سے متعلق ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے، اسرائیل کے سیکورٹی نظریے کے چار ستون ہیں۔ ان میں سب سے اہم فوجی  تسدید ہے۔ قوتِ مزاحمت کسی ملک کا اپنے دفاع سے قبل کا اہم ترین اسلحہ ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے اور جنگ کو پائیدار بنانے کے حوالے سے اسرائیلی فوج کی کمزوری نےتسدید  کے  افسانے کو زوال پذیر کیا ہے۔ ایک اور عنصر  قبل از وقت تعین ہے۔ قبل از وقت تعین کسی ملک کی تمام انٹیلی جنس صلاحیت کی بدولت دشمن کی کارروائی کو پہلے سے بھانپنے کی بالا دستی پرمبنی ہے۔ 7 اکتوبر کا واقعہ 1973 کی طرح اسرائیل کی قبل از وقت وارننگ کی صلاحیت کے کامل فاضل نہ ہونے کا مظہر ہے۔اسرائیلی سیکورٹی کے نظریے کا ایک اور عنصر دفاع ہے۔ دفاع ان صلاحیتوں کے مجموعے پر مشتمل ہوتا ہے جو فوج کو ایسی صورتحال میں بنیادی قوت کے طور پر اپنا دفاع کرنے کے قابل بناتا ہے جہاں باز رکھنے کا عنصر ناکام رہ  جاتا ہے اور جارحیت  عمل میں آتی ہے۔اسرائیلی فوج 7 اکتوبر کو نہ صرف اپنی دفاعی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی بلکہ اسے حقیقی معنوں میں فوج کی طرح غزہ میں لڑنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔  نظریہ سلامتی کا چوتھا ستون مطلق  فتح ہے۔مطلق فتح سے مراد ایک غیر متنازعہ فوجی فتح ہے جو دشمن کے لیے دوبارہ منظم ہونے اور دوبارہ حملہ کرنے کے عمل کو  ناممکن بنا دیتی ہے۔ اگرچہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کا حکمت عملی  ہدف حماس کا نام و نشان مٹانا  قرار دیا گیا تھا تو  اس ہدف کے پورا نہ ہو سکنے کی حقیقت آشکار ہے۔ اس  بنا پر نتن یاہو انتظامیہ نے "نام و نشان مٹانے"  کے نظریے سے باز آتے ہوئے  اسے کمزور کرنے کی  حکمتِ عملی اپنا   لی ہے۔

روایتی جنگ اور جنگی ماحول میں تبدیلی، جنگ کے اداکاروں اورفطرت میں تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نئے محرکات نے  مستقبل کے مشرق وسطی میں اسرائیل کی  قوت ِ مزاحمت کے در حقیقت کار آمد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے سوالات  کو جنم دیا ہے۔

اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات  محض فوجی نقصانات تک محدود نہیں۔  جب کسی ملک  کےمفادات اور خوف کو پالنے والے بنیادی عناصر عقلی اور دنیاوی  ہونے سے ہٹ کر کہیں زیادہ مذہبی بن جائیں تو اس ملک  کے بین الاقوامی تعلقات میں  کے ایک عام رکن کی طرح برتاؤ کرنا ممکن نہیں رہتا۔مثلاً داعش دہشت گرد  تنظیم  اسی نوعیت کی ایک مثال ہے۔  اپنے مفادات اور ڈر  پر مشتمل  بنیاد دنیاوی سے ہٹ کر مذہبی ہے۔ اس وجہ سے یہ خود  کو  کسی بھی اصول کا پابند تصور نہیں کرتا ۔ غزہ پر اسرائیل کے  جنگی قوانین کی پاسداری  نہ کرنے والے حملے، اسرائیل کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے جو بین الاقوامی قوانین سے ہٹ کر کاروائیاں کرتی ہے۔7 اکتوبر کے بعد عمل درآمد کردہ "غزہ نسل کشی"  نے واضح طور پر اسرائیل کو نسل کشی کرنے والے  ملک  کی ماہیت دلا دی ہے۔ یہ صورت حال جہاں ایک تاریخی المیہ ہے، وہیں مستقبل میں اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کا بھی  ایک نا گزیر  جزو بن جائیگی۔ یہ حقیقت کہ نیتن یاہو حکومت اور جنگ کے حامیوں کی طرف سے لاتعداد بار مذہبی حوالوں سے جنگ کا اظہار کیا گیا ہے  جو کہ  اس سے بھی زیادہ  گہرے مسائل کو منظر عام پر لاتاہے۔ اسرائیل کی نام نہاد سیکولر سیاسی حکومت خالی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں،  اس سے بھی بدتر  یہ اسرائیل کے مسیحا ئی نظریے کی حامل ایک ریاست  ہونے کی دلالت ہے۔ نتیجے کے طور پر، غزہ جنگ نے اسرائیل کو ایک بنیاد پرست ملک کے طور پر کوڈ کیا جو خود کو بین الاقوامی قوانین  کا لحاظ نہیں کرتا اور جنگ کو مذہبی روپ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت میں اسرائیل مخالف مظاہرے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔

اسرائیل کے لیے ایک اور نقصان، ایک بنیاد پرست ریاست کے طور پر جو قوانین کی پابند نہیں ہے اور اپنے اعمال سے تقدس کو منسوب کرتی ہے،  یہ عمل اس کے  معاشرے کا نقصان ہے۔ جب کہ 7 اکتوبر نے اسرائیل کے تحفظ کے احساس کو نہ صرف ایک ریاست کے طور پر بلکہ ایک معاشرے کے طور پر بھی ہلا کر رکھ دیا  ہے،  اسی طرح تاریخی طور پر  " یہودی نسل کشی " کے دائرے میں  اسے کسی  فریم میں ڈھالنے  نے عدم تحفظ اور سماجی خدشات کو مزید گہرا کرنے کا کام کیا ہے۔حملوں پر اسرائیل کے شدید  فوجی رد عمل نے عالمی سطح پر اسرائیل مخالف جذبات کو مزید وسعت اور تقویت دی ہے، جس بنا پر  یہودی برادری عالمی سطح پر تشویش کی  حامل ایک سوسائٹی کی ماہیت اختیار کر گئی ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ دار خود اسرائیلی حکومت ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ ایک ایسا ملک بن گیا ہےجو اپنے طرز عمل کی وجہ وہ اپنے معاشرے کے خدشات کو دور کرنے کے بجائے  انہیں مزید  گہرائی دے رہا ہے۔

اس مقام پر ایک اور اہم نقصان یہ ہے کہ اسرائیل ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو جائے گا جو بتدریج جمہوری طرز عمل سے ہٹ کر انتہا پسندی کے محور پر آمرانہ  ملک بن جائیگا۔ ایک ایسے ملک میں سیاست اور معاشرے کو معمول پر لانا ممکن نہیں جہاں سیاست کے بنیادی  محرکات مسلسل دوسری اقدار سے بالا تر اور  برقرار ہوں۔

اس تناظر میں اسرائیل میں سیاسی زندگی مزید بنیاد پرست بن جائے گی، سیاسی بیانات کا لہجہ   مزید  سخت ہو جائے گا اور عوام میں قوم پرست یہودی شناخت کا محور دوبارہ سے مظبوطی پکڑ جائیگا۔ یہ صورتحال اسرائیل کو بالخصوص مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مزید سخت کیمپ میں دھکیل دے گی اور دو ریاستی حل ناممکن  بن  جائے گا۔

فوجی، سیاسی اور سماجی نقصانات کے علاوہ اسرائیل کا سب سے اہم نقصان اس کی علاقائی سطح پر  جغرافیائی سیاسی پوزیشن میں منظر عام  پر آیا ہے۔ 7 اکتوبر سے  پیشتر   علاقائی تعلقات  کی بحالی   سے اسرائیل کے لیے اپنی تاریخی تنہائی پر قابو پانے کا ایک اسٹریٹجک موقع پیدا ہوا تھا۔ تاہم، مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسرائیل کا نظریہ  ایسا ہے کہ فتح صرف اسی کی ہو گی  جو کہ صفر حاصل کے مترداف ہے  اور علاقائی اداکاروں کے ساتھ اس کا  دشمنانہ موقف   اسے تنہا کرنے کا  موجب بن رہا ہے۔ عرب-اسرائیل تعلقات  کو معمول پر لانے، علاقائی اقتصادی منصوبے اور توانائی  شراکت داری سمیت  متعدد حکمت عملی مواقع غزہ کی وجہ سے کٹھائی میں پڑ گئے ہیں۔ ان مواقع کا دوبارہ  حصول  آسان نہیں ہو گا۔ یہ سلسلہ شام اور لبنان  میں اسرائیل کی پالیسیوں کو سختی دلائے گا یا  پھر  اسرائیل کو  مصالحت قائم کرنے پر مجبور کرنے والی کسی علاقائی  مساوات  کے اندر  قید کر دے گا۔

نتیجتاً اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور  طاقت کے شدید استعمال نے  اس کی سیاست، معاشرے اور  پہلے سے ہی  بُری ہونے والی  علاقائی و عالمی ساکھ  کو   زد پہنچائی ہے۔ اسرائیل اب مشرق وسطی میں ماضی کے مقابلے میں  کہیں زیادہ تنہا اور ایک  غیر محفوظ    ریاست   بن گیا ہے۔



متعللقہ خبریں