تجزیہ 57

آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے قارا باغ کی تازہ پیش رفت پر ایک جائزہ

2044174
تجزیہ 57

آذربائیجانی فوجی دستے قدم بہ قدم  پہاڑی قارا باغ کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں آرمینیائی قبضے کے لیے آخری سین شروع ہو چکا  ہے۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بعد قاراباغ میں آرمینیائی آبادی کے ذریعے اس خطے پر آرمینیا کے قبضے کو تقریباً 30 سال گزر چکے ہیں،تو  دوسری قاراباغ جنگ ستمبر 2020 میں لڑی گئی اور اس بار آرمینیائیوں کو شکست ہوئی۔ اب آذربائیجانی فوج نے انسداد دہشت گردی آپریشن شروع کرتے ہوئے  2020 میں شروع ہونے والے عمل کو مکمل کر لیا ہے۔

خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا اس موضوع سے متعلق جائزہ ۔۔۔

قاراباغ کی کہانی سوویت یونین کے منتشر ہونے کے  فوراً بعد کے دور سے تعلق  رکھتی  ہے۔ آرمینیا نے فروری 1988 اور مئی 1994 کی درمیانی مدت میں  قارا باغ میں مقیم  آرمینی باشندوں  کے تحفظ کے لیے جنگ کے نتیجے میں قارا باغ پر  قبضہ جما لیا تھا اور وہاں کے آرمینی باشندوں نے ایک آزاد ریاست کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اس دور میں روس کی طرف سے آرمینیوں کا ساتھ دینے نے  اس حوالے سے  نمایاں کردار ادا کیا تھا۔  اس وقت ہونے والی جنگ میں آذربائیجانی شہریوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام ہونے کے باوجود  عالمی  طبقے نے خاموشی اختیار کرنے کا ترجیح دی۔  اس خاموشی میں آرمینی لابی  کا اثرِ رسوخ پیش پیش تھا۔  تاہم خطے میں طاقت کا توازن  بدل گیا اور  اس  تناظر  میں آخر کار آذربائیجان  نے مقبوضہ علاقوں کو نجات دلانے کے ہدف کے ساتھ ستمبر 2020 میں  فوجی کاروائی کی۔

27 ستمبر 2020 کو پہاڑی قاراباغ جنگ  کو دوسری قارا باغ جنگ کے نام سے منسوب کیا گیا اوریہ آذربائیجان کی مکمل طور پر بالا دستی کے ساتھ نیتجہ خیز ثابت ہوئی۔   اس میں بلا شبہہ آذربائیجان کی حکمت عملی شراکت داری اور اس کے مرکزی اتحادی ترکیہ   کا ابھرنے والی ایک فوجی طاقت   بننے  نے اہم کردار ادا کیا۔

ترک فوج اور آذربائیجان کی فوج کے درمیان عملی   معلومات کے تبادلے، بلندیوں کی جانب گامزن  ترک دفاعی صنعت کے امکانات کے فراخدلانہ استعمال نے بھی  جنگ کے  نتائج پر  تیزی سے اثر ڈالا۔27 ستمبر کو چھڑنے والی جنگ تقریباً 44 دن جاری رہی  تو آذربائیجانی فوج کی تیکنیکی  برتری اور مسلح ڈراؤنز پر مبنی نئے ترک  عسکری  نظریے  کے میدان جنگ  میں  اثرات  کی بدولت  آرمینی قوتوں نے قلیل مدت کے اندر  حزیمت کاسامنا کرتے ہوئے روس کی ثالثی میں  طے پانے والے معاہدے   پر آمادگی کا مظاہر کر دیا۔

اس نکتے پر آرمینیا کے اندر طاقت کی جدوجہد اور پاشیان کے روس کے ساتھ  تنازعات نے بھی آرمینیا کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، آخر کار  آذربائیجانی فوج نے شوشا  سمیت متعدد علاقوں کو پہاڑی ردار ادا کیا، آخر کار  آذربائیاقارا باغ میں  آزادی دلائی اور لاچن راہداری کے ذریعے آرمینیا اور قارا باغ کے رابطے  کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

تاہم آرمینیائی باشندوں کی جانب سے امن معاہدے کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے، خطے میں ان کی مسلح سرگرمیاں، دہشت گردانہ کارروائیوں اورمعاہدے کا حصہ ہونے والی  زنگے زُرراہداری نہ کھلنے  کی بنا پر  آذربائیجانی فوج نے دوبارہ  ایک جامع فوجی آپریشن شروع کیا،  محض  24گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن سے خطے میں باقی  ماندہ آرمینیائی افواج کو شکست ہوئی اور پاشنیان کے  بھی فوج سے تعاون نہ کرنے  کے باعث  اپنی  مزاحمت  کو جاری نہ رکھ سکنے کا اندازہ کرتے ہوئے  انہوں نے  ہتھیار ڈال دیے۔ اب جبکہ آذربائیجانی فوج قدم بہ قدم قارا باغ میں مکمل تسلط حاصل کر رہی ہے، آرمینیائی مسلح افواج نے اس علاقے سے مکمل طور پر  انخلا شروع کرد یا ہے۔ اس طرح آذربائیجان نے 30 سالوں سے زائد عرصے سے  اپنے مقبوضہ علاقوں کو نجات دلا دی ہے۔

 اب پاشنیان کی قیادت میں آرمینیا کے سامنے2 متبادل موجود ہیں۔ یہ  یا تو مسائل کا حل آذربائیجان اور ترکیہ کے ساتھ مذاکرات اور مصالحت قائم کرتے ہوئے   مذاکرات  کی میز پر  حاصل  کرے گا یا پھر جھڑپوں کو جاری رکھتے ہوئے اپنے ملک کی شکست کو قبول کرے گا۔   توازن کے اعتبار سے  کافی کمزور پڑنے والے اور مشکلات سے دو چار آرمینیا   کا پہلے متبادل   پر  مؤقف اختیار کرنے  کا احتمال قوی دکھائی دیتا ہے۔ تا ہم  آرمینیا کے اندر طاقت  کا توازن اور تنازعات  اس قسم کی سیاست کی اجازت دیں  گے یا نہیں اس کا تعین  کرنا بالکل آسان نہیں ہے۔  



متعللقہ خبریں