تجزیہ 56

صدر رجب طیب ایردوان کے اقوام متحدہ کی 78 ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کے حوالے سے ترکیہ کی خارجہ پالیسیوں کا جائزہ

2041041
تجزیہ 56

صدر رجب طیب ایردوان کا اقوام متحدہ کی 78 ویں جنرل اسمبلی میں خطاب ترک خارجہ  پالیسی اور علاقائی    ترجیحات پر مبنی تھا۔ عالمی و علاقائی طاقت  کی دوڑ میں تیزی  آنے، عالمی غیر یقینی   میں تنوع اور ترکیہ کیے علاقائی  جیوپولیٹکل ماحول  کے سیکیورٹی بحرانوں کے ماحول سے اپنی ماہیت اختیار کرنے والے ایک دور میں ترکیہ ایردوان کی قیادت میں خارجہ پالیسیوں  کا  از سر نو تعین  کرنے پر مجبور ہے۔

سیتا سیکیورٹی ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔

مئی 2023 میں اپنی انتخابی کامیابی کے بعد صدر ایردوان نے خارجہ پالیسی کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا اس سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ نئے دور کی تشکیل کیسے ہوگی۔ ایردوان کی خارجہ پالیسی کے مرکز میں ترکیہ کی سٹریٹیجک خود مختاری کو مستحکم کرنا اور اس طرح "ترکیہ محور" کے طور پر تشریح کردہ اس عظیم حکمت عملی کے ہدف کو حاصل کرنا  شامل ہیں۔ ترکیہ کے محور کا  ہدف تبدیلی کے دور سے گزرنے والے  بین الاقوامی نظام میں ترکیہ کو ایک عالمی اداکار  کی حیثیت دلانا  ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس ہدف کو ترکیہ کو ایک موثر اقتصادی، فوجی اور سفارتی طاقت میں تبدیل کرکے عالمی طاقت کی رقابت  میں ایک حقیقی کھلاڑی کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

صدر ایردوان کو خارجہ پالیسی میں بیک وقت دو مقاصد حاصل کرنے ہوں گے۔ ایک طرف، لطیف سفارت کاری کو انجام دینا جو ترکیہ کے تنازعات اور مسابقتی جغرافیائی سیاسی ماحول میں ترکیہ کے بنیادی مفادات کا تحفظ کرے، اور دوسری طرف ایسے نئے آلات تیار کرنا جو عالمی اور علاقائی تبدیلیوں  کا قریبی طور پر جائزہ لے کر  ترکیہ کو تبدیلی کے مطابق ڈھال سکیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ترکیہ ایک صدی کو  پیچھے چھوڑ کر اپنی دوسری صدی میں داخل ہو چکا ہے، ان دونوں اہداف کو بیک وقت حاصل کرنا ایک نئے اسٹریٹجک ہدف کے طور پر علامتی معنی رکھتا ہے۔

یہ اسٹریٹجک ہدف صدر ایردوان سے  آئندہ پانچ سالہ مدت کے دوران ترکیہ کی ساختی تبدیلی کو سر انجام دینے اور اس ساختی تبدیلی کے لیے موزوں علاقائی اور عالمی کردار اپنانے کا تقاضا پیش کرتا ہے۔ اگرچہ ساختی تبدیلی کے لیے اس سوال کا جواب درکار ہے کہ کیسا  ترکیہ ہونا چاہیے، لیکن علاقائی اور عالمی کردار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ خارجہ پالیسی کس ڈگر پر ہو گی۔

نیا آئین اور نئی معیشت

تاریخی طور پر، عالمی نظامی تبدیلیوں اور ترکیہ کی طرف سے سر انجام دی گئی  اندرونی ساختی تبدیلیوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق   استوارہے۔ اس تناظر میں، ترکیہ نے عمومی طور پر ایک جامع داخلی تبدیلی کے ساتھ تاریخی موڑ پر نظامی تبدیلیوں کا جواب دیا ہے۔

ترکیہ کی تعمیری تبدیلی کو ممکن بنا  سکنے ی تعنیریاور نءی رجہ پالیسی کیسیوالاایک اہم ترین شعبہ نیا آئینی اقدام ہے۔ کیونکہ ترکیہ میں اس وقت 1980 کی فوجی بغاوت کے بعد باغیوں کی طرف سے  تشکیل دیے گئے  آئین کے تحت حکومتی نظام پر عمل درآمد ہو رہا ہے، حالانکہ اس میں درجنوں تبدیلیاں کی گئی ہیں لیکن  یہ بہت سے مسائل کا سبب بنتا ہے جیسے کہ 1980 کا آئین اپنے مواد اور ترکیہ کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کے لیے نا کافی ہے۔ اس  مرحلے پر ایک مضبوط سماجی اور سیاسی مطالبہ موجود ہونے اور جب ہم  ترک پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف منتقل ہونے کو بالائے طاق رکھتے ہیں  تو نیا آئین ایک سٹریٹیجک  تقاضے  طور پر دکھتا ہے۔ درحقیقت صدر ایردوان  بھی  نئے منشور کو ؛  نہ صرف ایک نئے سماجی معاہدے اور جمہوری نظام  میں گہرائی لانے  کرنے کے اہداف کی نظر سے ، بلکہ اسے بیک وقت عالمی تبدیلیوں سے ہم آہنگی  کے  ایک  نقطہ نظر کے طور پر بھی  دیکھتے ہیں: "لہذا، ہمیں ایک آئینی متن کی ضرورت ہے جو دنیا اور زندگی کے بارے میں ہماری قوم کے نقطہ نظر، ہمارے ملک کے تجربات اور مقاصد، اس کے الفاظ، س کی اصلیت اور حجم کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔"

نئے آئینی اقدام کے علاوہ، ترک معیشت میں آرتھوڈوکس پالیسیوں کی طرف واپسی کو خارجہ پالیسی سے الگ  تصور نہیں  کیا جا سکتا۔ عالمی  وبا کے بعد عالمی معاشی جمود، یوکرین میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی کمزوریوں، عالمی سطح پر اقتصادی اور تکنیکی مسابقت میں تیزی اور ترکیہ جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اس نے ترکی  کی اقتصادی پالیسیوں  میں  ایک  نئے کردار کے  نقشے  کی تشکیل  دینے  کو لازم و ملزوم بنا دیا ہے۔ ترکیہ کا   افراط زر کے دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنا، عالمی معیشت کے ساتھ مربوط ایک مسابقتی اقتصادی ماڈل  تشکیل دینا  اور اپنے تجارتی حجم میں توسیع لانا ترقی کرنے  کے لیے لازمی امر ہیں۔ اس  خصوصیت کا حامل ہدف، جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک محرکات کو بیک وقت منظم کرنے کی ضرورت کا تقاضا پیش کررہا ہے۔ اس  بنا پر  حالیہ ہفتوں میں حکومت کی طرف سے اعلان کردہ درمیانی مدت کے اقتصادی پروگرام کا مقصد ترکیہ کی اقتصادی کمزوریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور معیشت میں ساختی تبدیلی کو لاگو کرکے عالمی معیشت میں اس کا حصہ بڑھانا ہے۔

جیو پولیٹیکل تناظر

ایک نیا آئین اور ایک پائیدار معیشت سیاسی استحکام کو مزید مضبوط بنیادوں پر استوار کرے گی اور ترکیہ کی خارجہ پالیسی کو جغرافیائی سیاسی تناظر کے ساتھ صحت مند تعلقات قائم کرنے کے قابل بنائے گی۔ اس وقت اس بات کا جائزہ لینا بار آور ثابت ہو سکتا ہے کہ ترکیہ عالمی تبدیلی کی تشریح کیسے کرتا ہے۔ جیسا کہ صدر ایردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں زور دیا ہے، "عالمی نظام ایک جامع تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔اس تبدیلی کی سب سے اہم خصوصیت عظیم طاقت کے مقابلے کی واپسی ہے۔" اگرچہ اس طاقت کا مقابلہ امریکہ اور چین کے درمیان ہوتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن یہ براہ راست تمام اداکاروں کو متاثر کرتا  ہےاور انہیں اپنی پوزیشن پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

گو کہ  امریکہ اور چین کی  رقابت  نظامی سطح پر   قائم ہے، لیکن یہ علاقائی ذیلی نظاموں میں نئے اتحادی نظام کی تشکیل کا  موجب بن رہی ہے۔ حال ہی میں، AUKUS، QUAD، BRICS اور IMEC جیسے نئے عمل ترکیہ کو عالمی خارجہ پالیسی کے رجحان کے لحاظ سے اپنے روایتی تعلقات پر نظرثانی کرنے کی  طرف  دھکیل رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں عالمی نظام متحرک ہے، ترکیہ کے لیے لازم ہے کہ یہ محض  اپنی جیو پولیٹیکل پوزیشن پر مرکوز   خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے اپنی خارجہ پالیسی  کے علاقائی تنوع میں اضافہ کرے ۔

ترکیہ کے جغرافیائی سیاسی تناظر کی شاید سب سے اہم جہت یہ ہے کہ یہ تنازعات اور مسابقتی ماحول میں واقع ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ ترکیہ اور روس کے تعلقات کو براہ راست متاثر کررہی ہے اور یورپ، مغرب اور نیٹو کے ساتھ اس کے روابط کو نئی شکل دے رہی ہے۔ جہاں یورپ، روسی خطرے کے پیش نظر نیٹو کے تناظر میں متحد اور مستحکم ہونے کے درپے ہے تو یہ ترکیہ کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے کا بھی خواہاں  ہے۔ ترکیہ اس نئے عمل کو خود مختار پالیسی کے ساتھ کسی سانچے  میں   ڈھالنے کی کوشش  میں  ہے۔ شام اور عراق جیسے پڑوسی ممالک میں جاری تنازعات اور  دیگر نازک عوامل ترکیہ کے لیے اپنی  سلامتی کو ترجیح دینا ضروری بناتی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ عظیم طاقت کے مقابلے کے سائے  تلے  نئی ماہیت اختیار کر رہا ہے، ترکیہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دے رہا ہے۔ G20 سربراہی اجلاس میں اعلان کردہ IMEC منصوبے کے جواب میں  ترکیہ کی ترقیاتی گزرگاہ منصوبے میں تیزی لانے کی کوششیں،  جغرافیائی سیاست اور جیو اکنامک  محرکات کو  بیک وقت کس طریقے سے سر انجام  دینے کی  ایک اہم مثال ہے۔

خارجہ پالیسی ایک اسٹریٹجک میدان ہے جہاں یکطرفہ عمل کے بجائے باہمی تعامل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں حکمت عملی  تعلقات لازم و ملزوم ہیں ۔ کیونکہ خارجہ پالیسی ایک پیچیدہ میدان ہے جس میں ایک کھلاڑی  پر مبنی میدان کے بجائے کئی کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں صدر ایردوان کی تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ ترکیہ کی خارجہ پالیسی 360 ڈگری کے تناظر میں بنائی گئی ہے اور اس کا عالمی رخ ہوگا۔



متعللقہ خبریں