پاکستان ڈائری- صحافیوں کی ورکشاپ

صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشل فیڈریشن آف جرنلسٹس بھی اس حوالے سے ورکشاپس اور کورسز کا اہتمام کرتی ہے جس میں صحافیوں کو دورحاضر کی جدید چیزوں سے آگاہی دی جاتی ہے

2040428
پاکستان ڈائری- صحافیوں کی ورکشاپ

پاکستان ڈائری-38

صحافیوں کو بھی انکی استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے بہتر چیز ہے کہ مطالعہ کیا جائے یا مزید تعلیم حاصل کی جائے۔ بہت سے صحافی اپنے معمولات زندگی کی وجہ سے مزید تعلیم نہیں حاصل کرپاتے تو انکو ورکشاپ اور ٹریننگ مدد دیتی ہیں۔ دو یا تین روز کے کورس ورکشاپ ٹریننگ صحافیوں کو مزید تعلیم آگاہی دینے میں معاونت دیتے ہیں۔ مل جل کر کام کرنا اور نئ چیزیں سیکھنا ہمیشہ ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے۔ پھر اپنے ہی کولیگز سے بہت عرصے بعد ملاقات انسان کو فریش کردیتی ہے۔ مباحثے، سیر حاصل گفتگو اور تجربات کا تبادلہ خیال ہمیشہ انسان کی کارکردگی کو نکھار دیتا ہے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشل فیڈریشن آف جرنلسٹس بھی اس حوالے سے ورکشاپس اور کورسز کا اہتمام کرتی ہے جس میں صحافیوں کو دورحاضر کی جدید چیزوں سے آگاہی دی جاتی ہے۔ اس ہی حوالے سے صحافیوں کے لئے ٹرینگ کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا صنفی مساوات اور صحافیوں کی حفاظت، اس حوالے صحافیوں کو مزید آگاہی دی گئ۔

اس ٹریننگ میں پاکستان سے بارہ خواتین صحافیوں کو منتخب کیا گیا جن کا تعلق صحافت کے ساتھ پریس کلب اور صحافتی یونین سے بھی ہو۔ تاکہ وہ یہاں جو کچھ پڑھیں وہ آگے بھی مزید صحافیوں کو آگاہی دے سکیں۔ اس ورکشاپ میں انٹرنیشل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے ٹریننگ کروائی اور انکو آئی ایف جے کے پاکستان میں نمائندوں غلام مصطفی اور لبنی جرار نقوی کی معاونت حاصل تھی۔ تمام شرکا نے ان سے پڑھ کر بہت کچھ سیکھا جوکہ انکی عملی زندگی میں کام آئے گا۔ ویمنز میڈیا فورم پاکستان کی کوارڈینٹرز اسلام آباد سے راشدہ شعیب،لاہور سے روبا عروج، کراچی سے شیما صدیقی، کوئٹہ سے رومیصہ شاہ، پشاور سے فرزانہ علی نے شرکت کی۔ یہ تمام خواتین فورم کا حصہ ہونے کے ساتھ یونیز اور میڈیا کا فعال حصہ ہیں۔

اس کے ساتھ سئنیر صحافی فہمیدہ بٹ اور شہربانو بھی اس ٹرینگ کا حصہ تھیں۔ ربیعہ ارشد، جویریہ صدیق، سحرش قریشی، سعدیہ عرفان،  صائمہ قنوت اپنی اپنی یونین کی طرف سے نمائندہ کے طور پر شرکت کررہی تھیں۔

اس ٹریننگ میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا جن میں جنسی ہراسانی، صنفی امتیاز، صحافیوں کی جان و مال کی حفاظت، انکی پریس کلب میں نمائندگی شامل تھی۔ شرکا کو خاص طور پر میڈیا میں خواتین کے ساتھ ہراسانی کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ خواتین کبھی بھی ہراسانی سے نا ڈریں اسکا مقابلہ کریں اور اسکو رپورٹ کریں۔ اس کے ساتھ صنفی امتیاز کے حوالے سے بھی آواز اٹھائی گئ کہ خواتین کو بھی مردوں کے برابر مواقع اور تنخواہ ملنی چاہیے۔ تمام شرکا کو ان طریقوں سے پڑھایا گیا کہ وہ آگے اپنی یونیز اور اداروں میں مزید لوگوں کو اس حوالے ٹریننگ دے سکیں۔

ورکشاپ میں خاص طور پر اس چیز کو فوکس کیا گیا کہ خواتین صحافی اپنے صحافتی فرائض کی ادائگی کے دوران اپنی حفاظت کو کیسے یقینی بنائیں۔خبر کی تلاش میں خود خبر نہیں بن جانا۔ تقریب کے شرکا میں کورس مکمل ہونے پر اسناد تقسیم کئے گیے۔ ٹیم ورک نے اس ٹریننگ کو مزید آسان کردیا۔ نئے دوست بن گئے اور ایک دوسرے بھی بہت سیکھا۔ ہم سب کو یہ یادگار کورس ہمیشہ یاد رہے گا۔



متعللقہ خبریں