تجزیہ 52

ترکیہ کے شامی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ

2029244
تجزیہ 52

ترکیہ اور شام  ایک طویل عرصے سے دو طرفہ تعلقات کو ایک نئے فریم  پر از سر نو تشکیل دینے کا مقصد ہونے والے مذاکرات سر انجام دے رہے ہیں۔ رواں سال کے ماہ اپریل میں ماسکو میں دونوں ممالک کے وزرا خارجہ  کے علاوہ روسی اور ایرانی سفارتکاروں  کے شریک ہونا والا ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ تا ہم ماہ اپریل سے ابتک  ان مذاکرات کی ڈگر بتدریج  غیر یقینی کی صورتحال   سے دو چار ہے۔یہ غیر یقینی شام  میں تصادم کی پیچیدہ فطرت،  دیگر اداکاروں کی مختلف ترجیحات، اسد  انتظامیہ کے سٹریٹیجک طور پر معلق  مؤقف  اور  مملکت شام کی استعداد میں خامیوں سے تعلق رکھتی ہے۔  ترکیہ اور شام کے مابین مذاکرات  کی حقیقت پسند اہداف   تک  رسائی  میں مشکلات کھڑی کرنے والے دیگر محرکات بھی موجود ہیں۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر  پروفیسر  ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔

اولین طور پر ترکیہ اور شام کے مابین جاری سلسلے کو "بحالی معمولات" کے  طور پر بیان کرنا دو اسباب کے باعث  ایک غلط اور انتہائی  رجائیت پسند  موقف  ہو گا۔   ان میں سے پہلا معاملہ شام کے عالمی معاشرے کی جانب سے تسلیم کردہ، سرحدوں کا تعین کردہ اور اقوام متحدہ کی رکن ایک ریاست کی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے۔  درحقیقت   صحیح معنوں میں معمولات کی بحالی  شام کی خود مختاری، زمینی سالمیت اور سیاسی  ثابت قدتاری، زمینی سالمیت اور سیاسی  چمی کے حوالے سے تین پیشگی شرائط کو عملی جامہ پہنانے  کا تقاضا پیش کرتی ہے۔ابتک ان میں سے کسی بھی شرط کو پورا نہیں کیا گیا۔ اسد انتظامیہ  کو اپنی سرزمین پر مکمل اختیارات حاصل نہیں، ملک زمینی سالمیت سے محروم  ہے اور ملک میں سیاسی اتحاد کا فقدان ہے۔ بالخصوص مملکت شام،  اپنے اہداف کو خود مختاری  سے حاصل کرنے کی حقیقی صلاحیت سے کوسوں دور ہے۔ یہ معاملہ بیک وقت اسد انتظامیہ کے بھی شامل ہونے  والے عربوں  کے مابین معمولات کی بحالی کی کوششوں سے تعلق رکھتا ہے۔

ایک دوسری مشکل صورتحال  کا تعلق موجودہ حالات اور خواہش کردہ نتائج کے درمیکل صورتحال موجودہ حا؛ات دہ گا؛اان عدم ہم آہنگی سےہے۔ترکیہ۔ شام مذاکرات کے بنیادی مسائل میں سے ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور ادانہ  مطابقت حالیہ برسوں میں اس معاملے میں ایک بنیادی دستاویز کے طور پر اکثر و بیشتر حوالہ دیے جانے والی دستاویز  ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکیہ اور شامی انتظامیہ کے مابین پی کے کے۔ وائے پی جی دہشت گرد تنظیم کے خلاف جدوجہد  میں ایک نئے تعاون  موقف کی تشکیل  غیر یقینی کی صورتحال کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اسے  پالیسی تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  ترکیہ یا پھر  وائے پی جی کے معاملے میں اپنی پالیسیوں میں اہم سطح کی تبدیلیاں لانالازمی ہیں۔ ترکیہ، شام میں پی کے کے کے بر خلاف  اپنی پوزیشن پر مصمم دکھائی دیتا ہے اور یہ حتمی طور پر وائے پی جی کو غیر مؤثر بنانے اور شمالی شام میں اس کے وجود کو کمزور بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔ اس مرحلے   پر  قلیل المدت حل پیش کرنے والی مختلف ممکنہ حکمت عملیاں منظر عام پر آ رہی ہیں۔

اولین طور پرملکی  انتظامیہ ترکیہ کے سرحدی علاقوں میں PKK کے وجود کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اسے  منبج اور تل رفعت جیسے علاقوں سے نکال باہر کر سکتی ہے۔ البتہ پی کے کے کی طرف سے رضاکارانہ طور پر  اس مطالبے کی تعمیل  کرنے کا احتمال موجود نہیں اور  ملکی انتظامیہ کوالبے کی تعمیل  کرنے کا احتعمال  اسوقت  صلاحیت اور اردہ نہ ہونے والے  جبری اقدامات اٹھانے  ہوں گے۔ متبادل طور پر ترکیہ، شام کی قومی فوج کے ساتھ مل کر PKK/YPG کے خلاف محدود فوجی آپریشن شروع کر کے تنظیم کے خلاف حکومت کے ہاتھ مضبوط کر سکتا ہے۔ تاہم، YPG اور امریکہ کے درمیان جاری شراکت داری سے پیدا ہونے والی مشکلات شام کے ساتھ مذاکرات میں ایک پیچیدہ مسئلہ کھڑی کر رہی ہیں ۔ لہٰذا، دہشت گردی جیسے مسائل کی ترجیحات میں اختلافات مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے پیچھے بنیادی محرکات ہیں۔ اسی طرح مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ زمینی صورتحال اور مطلوبہ حل کے درمیان فرق کو نمایاں کرتا ہے۔ ترکیہ کی فوجی موجودگی اور شام کی عبوری حکومت اورشامی نیشنل آرمی کے زیر کنٹرول علاقوں میں تدبیر کو آسان بنانے والے مقامی طرز حکمرانی کے ماڈلز کے قیام کے بارے میں خبریں حوصلہ افزا ہیں۔ تاہم، ان فوائد کے باوجود،  خاص طور پر حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کو  مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے مشکلات برقرار ہیں ۔ جو لوگ حال ہی میں ان علاقوں میں واپس لوٹے ہیں انہیں حوصلہ شکن سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ حکومت اور لبنان اور اردن کے درمیان بات چیت جاری  ہے ، لیکن ان ممالک سےوطن  واپسی بہت معمولی سطح تک رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے  واپس آنے والوں کو "غدار" کی نظر سے  دیکھا جا رہا ہے،  تو بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو نے والے  اور اقتصادی صلاحیت محدود  ہونے  والے مقامات کو واپسی ایک چیلنجنگ کوشش ہے۔ ایک مربوط اور جامع روڈ میپ کے بغیر کسی معاہدے پر عمل درآمد مہاجرین کو درپیش مشکلات کو بڑھا سکتا ہے۔ لہذا  محفوظ علاقوں کو وسعت دینا اور مقامی انتظامیہ  کو مضبوط کرنا مہاجرین کی واپسی کے لیے زیادہ موزوں ہو گا۔

ایک دوسرا کلیدی   خدشہ شامی  مخالفین  کے ترکیہ ۔ شام مذاکرات میں کردار کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال سے متعلق ہے۔  اسد انتظامیہ   کی جانب سے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط کو قبول  کرنا، عسکری و سیاسی  معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے  ملکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات  کرنا نا ممکن ہونے والے شامی مخالفین  کے لیے ہتھیار ڈالنے کا مفہوم رکھے گا۔ ترکیہ  اس طرز کے کسی  سناریو کو قبول نہیں کرے گا۔ نتیجتاً جنیوا مذاکرات تین سال سے زائد عرصے سے تعطل  کے شکار ہیں اور  ملکی انتظامیہ کے ٹال مٹول سے کام لینے  کے تناظر میں  مخالفین اور اسد انتظامیہ کے مابین کسی نئے رابطے کے ماحول کا قیام    اہم سطح کی مشکلات   سے دو چار ہے۔ جب ہم ادلیب کی موجودہ صورتحال کو بالائے طاق رکھتے ہیں  تو اس  سے موجودہ حالات کہیں زیادہ پیچیدہ  بن کر سامنے آتے ہیں۔

مصالحتی مذاکرات   کی حیثیت کا تعین کرنے والی   غیر یقینیوں کو مد نظر رکھنے سے  ترکیہ کے لیے بھاری تعداد میں رسک منظر عام پر آتے ہیں۔

اس غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر جو مصالحتی مذاکرات کی خصوصیت رکھتی ہیں، ترکیہ کے لیے بہت سے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔  اپنی موجود  حیثیت  کو برقرار رکھنا، شمال مشرقی شام میں YPG کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے ساتھ، ترکیہ کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ شامی حکومت مذاکرات کو حکمت عملی سے تنازع کو طول دینے کے لیے استعمال کرے گی۔ مزید برآں، ایران کے شام میں اپنے وجود کو  مزید گہرا ئی دینے  اور ملکی  آبادی کے  ڈھانچے  کو نئی شکل دینے کی کوشش ترکیہ کے لیے ایک اضافی چیلنج ہے۔ چونکہ ترک پناہ گزینوں کی ایک قابل ذکر تعداد حلب سے آئی ہے، جن کی  واپسی کی راہ میں  ایران اور شامی حکومت رکاوٹیں  پیدا کر رہی ہیں۔ یہ عمل ترکیہ کے درمیانی مدت کے اسٹریٹجک ماحول کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔

خانہ جنگیوں سے متعلق لٹریچر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ تنازعات عام طور پر کم از کم 15 سال تک جاری رہتے ہیں اور ان کے دوبارہ ہونے کا 50 فیصد امکان ہوتا ہے۔ اگر ہم اسی نظریے  کو لاگو کریں تو ایسا لگتا ہے کہ شام کی جنگ کم از کم مزید تین سال تک جاری رہے گی۔ شام کی خانہ جنگی میں مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی محرکات  کے پیچیدہ عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ بات قابل فہم ہے کہ یہ جنگ کم از کم مزید 15 سال تک جاری رہے گی۔

انقرہ کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ ، ترکیہ شام  مذاکرات   میں حد بندیاں موجود ہیں اور  میدانی حقائق  تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہے ہیں، جو کہ شام میں تنازعات کی فطرت اور حل کی ماہیت کو آخر کار  بدل دیں  گی۔



متعللقہ خبریں