تجزیہ 45

روس میں ویگنر زر فوجیوں کی بغاوت اور پوتن کی پالیسیاں

2008493
تجزیہ 45

روس یوکرین جنگ پر مرکوز ہوتے ہوئے کسی ممکنہ گرمیوں کے حملے کی تیاریوں میں تھا تو  اسے غیر متوقع طور پر  ایک ایسی جگہ سے جھٹکا لگا جس کی اس بالکل  توقع نہ تھی۔ بذات خود  تعاون کرتے ہوئے  تشکیل کردہ ویگنر زر فوج   نے اچانک یوکرین کے محاذوں سے انخلا ء کرتے ہوئے روس کے اندر ماسکو کی جانب پیش قدمی کرنی شروع کر دی۔  روسی فوج لاچارگی سے اس منظر کو دیکھ رہی تھی تو پوتن  کو اپنے عہدِ اقتدار میں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار جب  ویگنر  فوج ماسکو سے تقریباً 200 کلو میڑ تک قریب آ  چکی تھی، بیلا روس کے رہنما الیگزنڈر لوکا شینکو  کی کوششوں سے   ایک معاہدہ طے پانے پر   زر فوج رکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی۔ تا ہم  ویگنر بغاوت کے  روس اور یوکرین سمیت  شام اور لیبیا جیسے ممالک میں  اس کے اہم نتائج سامنے آئیں گے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا  مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

24  جون  کے روز ویگنر  سے منسلک زر فوجیوں  کا  فرنٹ لائن  کو ترک کرتے ہوئے  اچانک روس کے اندر داخل ہونا  اور روستووف شہر  پر قبضہ کرتے ہوئے ماسکو کی جانب پیش قدمی کرنا  دنیا بھر کی طرح  صدر ِ روس کے لیے  بھی ایک دھچکہ ثابت ہوا۔  روس کی جانب سے   پروان چڑھائی گئی  اور کسی قسم کا حساب و کتاب نہ دینے والی   ایک فوج کے طور پر استعمال کردہ ویگنر اب کی  بار  روس کے مفادات کے بر عکس براہ راست   اس کے لیے خطرہ تشکیل دیتے ہوئے  ماسکو  کی جانب بڑہ رہی تھی۔  روس  کا قریبی طور پر  جائزہ لینے والے ماہرین  کو   دراصل یہ علم تھا کہ روسی وزارت دفاع اور پریگوژن کی قیادت کی ویگنر  کے درمیان  سنگین مسائل پائے جاتے ہیں۔ خاصکر   پریگوژن نے حالیہ ایام میں  سخت بیانات دیتے ہوئے  وزیر دفاع شوئگو  اور  چیف آف جنرل سٹاف  گرامیسووف پر  خیانت کا الزام  عائد کرتے ہوئے  یوکرین جنگ   کی منصوبہ بندی میں ناکام ہونے پر زور دیا تھا اور آخر میں اس نے دعوی کیا تھا کہ روسی افواج نے ویگنر کے کیمپوں پر بمباری کی  ہے۔ بعد میں اس نے  انصاف مارچ  کے نام سے فوجی  کاروائی شروع کی تھی۔  دراصل  روسی وزارت دفاع نے ویگنر  سے منسلک  عناصر  کے براہ راست اس کے ساتھ معاہدہ  طے کرنے کاعمل شروع کیا تھا۔  اسے علم ہو چکا تھا کہ ویگنر بہت طاقتور بنتے ہوئے قابو سے باہر ہو چکی ہے ، تا ہم   لازمی اقدامات اٹھانے میں   انہیں تاخیر ہوئی اور  بین الاقوامی معنوں میں روس کو انتہائی مشکلات سے دو چار کرنے  والی اور نازک  کمزور ملک کی حیثیت  دلانے والی  بغاوت شروع ہو گئی۔

یہ بغاوت  اور  جاری رہنے والے پریگوژن کے متعدد دعوے  سچ ثابت ہوئے۔ روسی فوج   نے ویگنر کی طرف سے قبضہ کردہ شہروں کا دفاع کرنے نہ کرنے اور حتی ماسکو تک کا دفاع نہ کر سکنے کی حد تک   استعداد کے مالک نہ ہونے کا مظاہرہ کیا۔  اس نے خفیہ معلومات اور کمان کنڑول  کے اعتبار سے  سنجیدہ سطح کی کمزوریوں  کا ایک بار پھر ثبوت پیش کیا۔  پوتن کو بطور صدر روس  اس عمل سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ۔   ماسکو انتظامیہ   ویگنر کی پشت پناہی کرنے والی  خفیہ اور اہم طاقت   کا تعین کرنے  سے تا حال قاصر ہے۔  اور بیلا روس کی ثالثی میں  طے پانے والے معاہدے  کے نتائج بھی واضح نہیں ہیں۔  تاہم  پوتن کے برخلاف  کس فریق نے کامیابی حاصل کی ہے کا تعین کر سکنا مشکل ہے۔

اس کے علاوہ روس میں اس بغاوت کے یوکرین کی جنگ میں سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ممکن ہے کہ یوکرین کی فوج اور اس کے اتحادیوں پر ایسا اثر پڑے جو جنگ جیتنے کے عزم کو ہوا دے اور شام اور افریقہ کے مختلف ممالک میں ویگنر کی موجودگی کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ ماسکو کا تعاون حاصل کیے بغیر  ویگنر کا ان ممالک میں اپنے وجود کو منوانا  زیادہ ممکن نہیں دکھتا

لیکن ویگنر کے آہنی مکے  کے بغیر روس کے لیے جغرافیائی سیاسی نقصانات ہوں گے۔ پوتن کے سامنے اب انتظام سنبھالنا لازمی ہونے والی ایک انتہائی  مشکل مساوات ہے۔جب کہ  ان کے دشمن زیادہ  فعال ہونے کی حیثیت کے مالک ہیں۔



متعللقہ خبریں