تجزیہ 42

ترک صدر ایردوان کے نئے صدارتی دور اور ترک خارجہ پالیسیوں پر ایک جائزہ

2000676
تجزیہ 42

صدر ایردوان نے  روایتی طور پر  دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ اور آذربائیجان میں سر انجام دیے ہیں۔  ان دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں دیے گئے پیغامات اور بعد میں پیش کردہ جائزات ترکیہ میں نئے دور  کی پالیسیوں کے بارے میں اہم اشارے دیتے ہیں۔دونوں ممالک  ہر چیز سے پہلے نہ صرف ترکیہ کی خارجہ پالیسیوں کی اولیت کے اعتبار سے بلکہ علاقائی رقابت اور مسائل کے  حوالے سے بھی قدرے اہمیت کے حامل ہیں۔  مسئلہ قبرص مشرقی بحیرہ  روم سے متعلق سیاست کی مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ آذربائیجان  ترکیہ کے لیے  حد درجے حیاتی اہمیت کا مالک  ایک ملک ہے۔ خاصکر قارا باغ فتح کے بعد اس نے مزید اہمیت حاصل کر لی ہے۔ ہم ان  دونوں ممالک کے دوروں کی روشنی میں نئے دور کی خارجہ پالیسی میں اولیت کے حامل  چند ایک  معاملات پر    بات کرنا چاہتے ہیں۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ  ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع پر جائزہ  ۔۔۔

خارجہ پالیسی کے نئے دور کا سب سے اہم پہلو صدر ایردوان کی کئی برسوں سے نشاط کردہ  قائدانہ  سفارت کاری ہے ۔ صدر ایردوان، جو عالمی اور انتہائی مثبت سوچ رکھتے ہیں، نئے دور میں عالمی مسائل میں مزید سامنے آئیں گے۔ ان کے دیگر سربراہان کے ساتھ تعلقات،   اہم عالمی معاملات میں ادا کردہ سفارتی کردار اور  پر عزم طریقے سے عالمی مسائل میں قابل توجہ  کاروائیاں لیڈر شپ کے محور پر مبنی خارجہ پالیسی  کا مزاج پیش پیش ہیں۔ علاوہ ازیں ترکیہ کا صدارتی حکومتی  نظام  ایردوان کو اپنے اس کردار کو با آسانی  ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

دوسرا اہم معاملہ ترکیہ کی حالیہ برسوں میں نشاط کردہ  سٹریٹیجک   خود مختار ی پر مبنی خارجہ پالیسی کی مفاہمت کو مزید  مضبوطی دلانا ہو گا۔یہ صورتحال خارجہ پالیسی میں بڑھنے والی استعداد اور وسعت حاصل کرنے  والے  خارجہ پالیسی  کے  دائرے کی  بدولت ترکیہ کو آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کرنے کو مزید سہل بنارہا ہے۔  خاصکر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات  میں  خود مختاری  ایک سٹریٹیجی  کی اولیت کے طور پر نمایاں ہے۔

خاص طور پر مغرب کے ساتھ تعلقات میں، خود مختاری  اہم  سٹریٹیجی ترجیح کے طور پر ابھرتی ہے۔ کیونکہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو ترکیہ اور مغرب کے درمیان مشترک نہیں ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسٹریٹجک خود مختاری کا ہدف نئے دور میں مزید گہرا ئی پکڑنے کے عمل کو  جاری رکھے گا۔

اولیت کا ایک دوسرا معاملہ نئے دور میں جو کہ ایجنڈے میں نمایاں رہے گا وہ  معمولات کی بحالی کا معاملہ ہے۔ تعلقات کو معمول پر لائے جانے والا اہم ترین معاملہ مشرق وسطی   میں جاری  کاروائیوں کو تشکیل دیتا ہے۔ شام کے ساتھ  تعلقات  کی بحالی کے عمل میں ، حقان فیدان کے وزیر خارجہ منتخب ہونے  کے ساتھ   مزید سرعت  ممکن بن سکتی ہے۔ ہم خلیجی ممالک  کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہونے کی  توقع کر سکتے ہیں۔ جبکہ ایران کے معاملے میں  صورتحال  تھوڑی مختلف ہے۔  آذربائیجان سے وطن واپسی پر پریس بریفنگ کے دوران صدر ایردوان  کی ایران پر نکتہ چینی انقرہ ۔ تہران کے تعلقات   نئے دور میں تناو کا شکار ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔  شاید   نئے دور کی رقابت اور تصادم کا محور انقرہ اور تہران کے مابین  ہونے کا احتمال قوی  بن سکتا ہے۔ جو کہ  شام ، عراق اور آذربائیجان کے معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان مزید رقابت کی دوڑ  میں تیزی آنے کا مظہر ہے۔

ایک دوسرا اہم  عنوان معمولات کی بحالی  کے متوازی  پیش  رفت ہو سکنے والے اقتصادی تعلقات کو مرکزی  حیثیت دلانا ہے۔  ترکیہ کو اقتصادی  بحران  سے نجات دلانے کا واحد راستہ  برآمدات  میں اضافہ کرتے ہوئے  ترکیہ کی معاشی   ترقی   میں حصہ ڈالنا ہو گا۔ لہذا  خارجہ پالیسی میں حالات کو معمول پر لانا اور ڈپلومیسی کا  پیش پیش رہنا قدرے اہمیت کا حامل ہے۔ اس تناظر میں تجارتی  ریاست  پر مبنی خارجہ پالیسیوں کو اپنانے کا سلسلہ کلیدی ہو گا۔ صدر ایردوان   کے وطن واپسی کے دوران یونان کے حوالے سے پیغامات  ایتھنز اور انقرہ کے درمیان نئے دور میں تعلقات  میں نرم گوشہ  پیش پیش  رہنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

تعلقات کی بحالی سلامتی کے معاملے کو پسِ پردہ رکھنے کا مفہوم نہیں رکھتی۔ اس بنا پر  سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی    تعلق متوازن طریقے سے پیش قدمی کرے گا۔ اس تناظر میں حقان فیدان کا کردار پیش پیش ہو سکتا ہے۔  ان کا بیوروکریٹک پس منظر  اور مکمل آگاہی ہونے والی فائلیں خارجہ پالیسی سلامتی کے ایک اہم سلسلہ ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔ لہذا یہ کہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔ اس ہنا ممکن ہے کہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ خارجہ پالیسی میں اولیت کا مکے خلاف جدوجہدعاملہ ہو سکتا ہے۔

نئے دور میں ترکیہ کا بین الاقوامی ایجنڈا بھی کافی   وسیع  نوعیت کا ہو گا۔ اس سلسلے میں، ہمیں ایردوان سے توقع کرنی چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ میں اصلاحات، موسمیاتی تبدیلی، یوکرین کے بحران، افریقہ اور فلسطین کے معاملات میں پیش پیش رہیں گے  اور انقرہ  کے ایک  عالمی اداکار بننے کی جستجو میں  تیزی لائیں گے۔ نیا دور متحرک ہوگا  اور ترکیہ  کے لیے مواقع  فراہم کرنے کی حد تک خطرات کو بھی سامنے لائے گا۔



متعللقہ خبریں