تجزیہ 32

"نئے دور میں داخل ہوتے وقت بین الاقوامی تعلقات اور عالمی پائیدار ترقی" چین اور روس کے نئے منشور پر ایک تجزیہ

1971556
تجزیہ 32

اس کالم کے عنوان کے سوال کےجواب   تک رسائی کے لیے ماضی کے اوراق کو کھولتے ہوئے  4 فروری 2022کو لوٹنے کی ضرورت ہو گی۔ بیجنگ اولمپکس کی وساطت سے چین کا دورہ کرنے والے  پوتن نے جن پنگ سے مذاکرات کیے ، جن کے نتیجے میں موجودہ دنیا کے نظام کے لیے کسی منشور  کی حیثیت کے حامل عنوان"نئے دور میں داخل ہوتے وقت بین الاقوامی تعلقات اور عالمی پائیدار ترقی" کے تحت ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر  مراد یشل طاش کا اس موضوع کے حوالے سے جائزہ ۔۔۔

اس اعلامیہ میں  دونوں ممالک کے  سربراہان نے باہمی شراکت داری  میں کوئی حد بندی نہ ہونے پر زور دیا ہے تو انہوں نے اس شراکت داری نظریے کی تفصیلات کو بھی بیان کیا ہے۔ جس کے مطابق یہ شراکت داری اتحاد قائم کرنے ،  تصادم اور کسی بھی تیسرے فریق کو ہدف نہ بنانے پر مبنی ہے۔ اس نقطہ نظر سے یہ کہنا درست ہوگا کہ چین اور روس کے درمیان پہلے سے ہی شراکت داری موجود ہے لیکن روس یوکرین جنگ کے عالمی نظام پر اثرات اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات  کی آواز کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔

مغربی ممالک  کی روس پر سخت پابندیوں کے اثرات سے اپنی معیشت کا تحفظ  کرنے کا خواہاں چین  اس عمل میں اپنی پوزیشن کو ممالک کی زمینی سالمیت کے تحفظ، ڈائیلاگ کے دروازے  بند نہ کر نے اور یکطرفہ پابندیوں کے سود مند نہ ہونے کی وضاحت کرنے  والی درمیانی راہ  کے مطابق زیر لب لا رہا ہے تو  یہ بیک وقت اس جنگ کا موجب ہونے والے بنیادی عناصر نیٹو کی توسیع اور امریکہ ہونے کا  متعدد پلیٹ فارموں پر اظہار کر چکا ہے۔ اگرچہ  چین  کی جانب سے روس کو فوجی سازو سامان مہیا کرنے کے دعوے  اس عمل میں سامنے آئے ہیں تو  چین  نے ان دعووں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے تا  ہم اس نے یوکرین پر روس کے حملوں کو " قبضے"  سے تعبیر کرنے سے گریز کیا  ہے۔

گو کہ  چین نے اس عمل میں روس کا ساتھ دینے کے بجائے پس منظر میں رہنے کو ترجیح دی ہے ، تو مغرب کی پابندیوں کے اثرات کے باعث  ماسکو-بیجنگ انتظامیہ کے درمیان اقتصادی اور سٹریٹیجک  پیمانے پر تعلقات مزید پروان چڑھے ہیں  اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم  اپنی تاریخ کی چوٹی تک جا پہنچا ہے۔

4 فروری کے مذاکرات کے بعد دونوں سربراہان نے  شنگھائی تعاون تنظیم کے صدارتی سطح پر اجلاس سمیت مختلف پروگراموں میں  ملاقات کی ہے تو بھی ان میں سے کسی بھی ملاقات کی جن پنگ کے دورہ ماسکو کی حدتک بازگشت سنائی نہ دی۔ اس کی بنیادی وجہ جن پنگ  کی سال 2023 کے آغاز سے بدلنے والی اور مغرب  کی اقتصادی محور کی حامل اولیت سے کنارہ  کشی اختیار کرتے ہوئے زیادہ لچکدار اور بہادرانہ خارجہ پالیسی  کی جانب سرکنے والی پوزیشن  ہے۔ یہ بیک وقت جن پنگ کی تیسری بار صدارتی  عہدے کو سنبھالنے کے عمل کو ضمانت میں لینے کے بعد  بیرون ِ ملک کا پہلا دورہ تھا جو کہ   عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے پوتن کے لیے جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے فیصلے کو صادر کرنے کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔

واضح طور پر دیکھا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ماسکو میں سفارتی طرز عمل سے ہٹ کر ایک دوسرے کو ’’دوست‘‘ کے طور  پر بیان کیا  اور ان کے مذاکرات کافی دوستانہ ماحول میں سر انجام پائے ۔دورے کے بعد جاری کردہ  دونوں اعلامیوں میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ امریکی قیادت کے حامل واحد قطبی نظام کا انجام اب قریب پہنچ چکا ہے اور  نئے دور میں کثیرالقطبی نظام کا قیام  عمل میں آنا شروع ہو جائیگا۔

اس  نظام کے  اعلامیہ میں جگہ پانے والے  "بین الاقوامی تعلقات میں جمہوری عمل" اور "عالمی نظم و ضبط" تصورات سے تائید  ہوئی ہے۔ آئیے یہاں پر   اس جملے کی یاد دہانی کراتے چلیں جو جن پنگ  نے پوتن   کو الوداع  کرتے وقت  کہا تھا  اور جس نے کافی ہلچل مچا دی تھی۔"صدی بھر کے دوران مشاہدہ نہ ہونے والی تبدیلیاں  ظہور پذیر ہو رہی ہیں اور  ہم ان تبدیلیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔"  یہ کافی وزنی جملہ ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں  ممالک کے سربراہان کی جانب سے ایک  دوسرے کے لیے اپنائے گئے  کردار  کا واضح ترین مظہر  ہے۔  اس اعلامیہ کے علاوہ  طے پانے والے ترقی اور باہمی تعاون  کی اساس پر سرمایہ کاری کے منصوبے ، سائبیریا   پاور ٹو ،قدرتی گیس  پائپ لائن سے متعلق عمومی عمل میں اس شراکت داری کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اقتصادی، سماجی اور سفارتی حربوں پر مشتمل ہیں۔

دوسری طرف اس  دورے پر  مغربی اشاعتوں میں روس  نے چین کو جونیئر پارٹنر کا کردار دیا ہے کے حوالے سے  تبصرے  سامنے آئے ہیں تو  روسی اور چینی ذرائع نے اس دورے میں شامل علامتوں  اور اشاروں کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے ،  دونوں ممالک کی طرف سے ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی جانب ایک مضبوط قدم سے تعبیر کیا ہے۔



متعللقہ خبریں