تجزیہ 19

روس ۔ یوکرین جنگ اور نئے سال میں اس کی ڈگر کے حوالے سے جائزہ

1929204
تجزیہ 19

سال 2022 کے اعتبار سے عالمی  جیو پولیٹکل مساوات میں نمایاں ترین واقع روس  کی  یوکرین پر قبضہ جمانے کی کوشش  ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ روس آسانی سے ملک پر قبضہ کر لے گا لیکن روسی یوکرین کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکے۔ جنگ دونوں فریقوں کے لیے تباہ کن انداز میں طول پکڑ رہی ہے۔ 2023 کے حوالے سے دیکھا جائے تو بین الاقوامی سطح پر سب سے اہم مسئلہ یہی  جنگ ہو گا اور  یہ واضح ہے کہ فریقین فی الحال سیاسی اتفاق رائے سے بہت دور ہیں۔

سیتا خارجہ پالیس محقق جان اجون  کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

نئے سال کے پہلے ایام میں روس ۔ یوکرین کی جنگ  بھر پور طریقے سے  جاری ہے۔ خاص طور پر یوکرین کی فوج کی جانب سے دونتسک کے ماکیوکا قصبے میں روسی فوجیوں کو نشانہ بنانے  کی وسیع پیمانے پر بازگشت سنائی دی۔ یوکرینی ذرائع نے اعلان کیا  ہے کہ HIMARS  میزائلوں کے  ذریعے  حملے کے نتیجے میں کم از کم 400 روسی فوجی ہلاک ہوئے  ہیں تو  روسی وزارت دفاع کو یہ تسلیم کرنا پڑا  ہے کہ اس حملے میں  اب تک ہلاکتوں کی تعداد  83  ہے۔

روس نے گزشتہ مہینوں میں  ابتدائی ایام کی  غیر منظم   کارکردگی  سے دور جاتے ہوئے    منظم اور اجتماعی   کاروائیاں کرنے  کی ماہیت اختیار  کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی ، خاصکر متحدہ فوجی قوتوں کی  زیر کمانڈ   تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ۔, روسی فضائیہ کے کمانڈر سرگئی سروویکن  کو یوکرین میں  جنگ کرنے  والے فوجیوں کا نیا کمانڈر مقرر کیے جانے کے بعد نسبتاً مثبت نقطہ نظر دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم ماکیوکا میں بھاری  جانی نقصان  نے ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔   کہا جاتا ہے کہ علاقے کی چھاونی   کا ہیمارس میزائلوں کی  رینج میں واقع ہونا اور چھاونی میں موجود فوجیوں کی جانب سے موبائل فون کا وسیع استعمال   اس مقام کے ہدف بننے کا موجب بنا ہے۔ لہذا  یہاں پر ایک بار پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ  ۔ کمانڈ ۔ کنٹرول  اور عدم ڈسپلن  کی بنا پر روسی فوج کو یہ  بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

درحقیقت  حالیہ چند ایام میں سروویکین  کی  زیر قیادت کی  روسی فوج نے بعض نقصانات کو اعتراف کرتے ہوئے  ایک دفاعی  لائن کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل  کی تھی اور   بھاری نقصان کو کم سے کم سطح تک  گراتے ہوئے اور   موسم   سرما  کی بھی خصوصیات  سے  استفادہ کرتے ہوئے  اپنے آپ کو مستحکم کیا تھا۔  علاوہ ازیں سورو ویکن   کے   شام  سے مشابہ  تباہ کن حکمت عملی کے ذریعے  یوکرینی بنیادی ڈھانچے   کو ہدف بنانے والے  حملوں کے ذریعے  بعض  مطلوبہ  نتائج حاصل کیے گئے  تھے اور  ایسا لگتا تھا کہ  اس پیش رفت نے  یوکرینی فوجیوں کےمومنٹم کو توڑ  دیا ہے۔ تا ہم   یہ واضح ہے کہ  روسی  فوج کو  نئے کمانڈر کے بھی  حل نہ کیے  جا سکنے والے  کہیں زیادہ  سنگین   مسائل کا سامنا ہے۔

موسم بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ، اگلے مورچوں پر مزید شدید جھڑپیں ہوں گی، خاص طور پر یوکرین کی فوج کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کو بچانے کے لیے  بر ی  کارروائیوں کو منظم کرنے کی توقع ہے۔ ایک بار پھر جب کہ مغربی ممالک ہتھیاروں کی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں، روسی دفاعی صنعتوں کو زیادہ اہمیت دے کر اپنی پیداوار بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔  لیکن یہ بھی فراموش  نہیں  کیا جانا  چاہیے کہ کہ آبادی کے لحاظ سے روسی کو نمایاں برتری حاصل ہے۔

جہاں جنگ طول پکڑ رہی ہے تو  فریقین ایک دوسرے کے  حوصلے پست کرنے کی منطق  کے ساتھ  کاروائیاں  کر رہے ہیں،  لیکن یہ سوالیہ نشانات ہیں کہ کون زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کرے گا اور اپنے پاوں پر کھڑا  رہے گا۔ دونوں فریقین منفی اور مثبت  صورتحال کے مالک ہیں ،  تاہم یوکرین کے لیے مغربی ممالک کا عزم اور اصرار اس حوالے سے نمایاں  رہے  گا۔   عوامی جمہوریہ  چین کی اس مرحلے پر   روس کے حق میں مداخلت کا احتمال بھی موجود ہے۔  ترکیہ  سال  2023 میں بھی   تیسرے راستے کی سیاسی پالیسیوں  کے ذریعے   فریقین کے درمیان ثالثی کے کردار کو جاری رکھے گا۔



متعللقہ خبریں