تجزیہ 11

یوکیرین جنگ میں روس کے نئے کمانڈر کی تقرری کے بعد روسی فوج کے نئے حربے

1905202
تجزیہ 11

روس کی  قبضہ کرنے کی کوشش کے ساتھ چھڑنے والی روس۔ یوکیرین  جنگ اپنے زوروں پر ہے تو  تقریباًٍ ایک ہزار  کلو میٹر طویل فرنٹ لائن پر  فریقین  ایک دوسرے کو ہدف بنانے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔  تا ہم خاصکر گزشتہ چند ہفتوں میں  یوکیرینی افواج  کے خرکیف  پر قبضہ جمانے کے  ساتھ حاصل کردہ   برتری   کے برخلاف  اب روس  کی جانب سے  توازن قائم کرنے کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔   بالخصوص روسی کمانڈر سرگئے سرو ویکین کو  یوکیرین جنگ کی کمان سنبھالنے والے ’متحدہ فوجی قوتوں کی کمانڈرشپ ‘ سونپے جانے کے بعد روس  کے شام میں  عمل درآمد کردہ بعض تباہ کن  حربوں  کو یوکیرین  میں بھی آزمائے جانے  سے موثر نتائج سامنے  آئے  ہیں۔

سیتا  خارجہ پالیسی  محقق جان اجون کا مندرجہ بالا  موضوع پر جائزہ  ۔۔۔

یوکرین میں جنگ چھڑے  9 ماہ  بیت چکے ہیں تو  یہ کہنا نا ممکن ہے کہ  جنگ کی ڈگر روسیوں کے  حق میں ہے۔ روس نے تھنڈر  آپریشن  کے ذریعے  کیف پر قبضہ کرنے کے  ہدف کو  روایتی  قبضہ جنگ میں تبدیل  کردیا تھا اور اب یہ  قبضہ کردہ علاقوں  کا دفاع کرنے کی  پالیسیوں تک پیچھے ہٹ چکا ہے۔ خاص کر خرکیف  میں وسیع پیمانے کی حزیمت نے  یوکیرینی فوج  کا پلہ  بھاری  کرنے  میں معاونت کی  اور روسی فوج کے حوصلے بری طرح پست ہو گئے،  قلیل مد ت کے اندر  خرکیف کو  کھونے  کے تبصرے  کیے جانے  لگے۔ تا ہم پوتن نے آخر کار  ایک اہم  چال چلتے ہوئے  میدانی جنگ کی  کمان سنبھالنے والے کمانڈر   اور عمل درآمد کردہ حکمت عملی کو  تبدیل  کر دیا۔

روسی  وزارت ِ دفاع نے یوکیرین  میں  جنگ کرنے  والے دستوں  پر مشتمل  ’متحدہ عسکری قوتوں کے ہیڈ کوارٹر‘ میں بھی   اہم  سطح کی تبدیلیاں  کیں۔ روسی  فضائیہ کے کمانڈر سرگئے سرو ویکین  کو  یوکیرین میں  جنگ کرنے والے دستوں کا کمانڈر متعین کیا گیا ہے۔   گو کہ سرو  ویکین نے  1990 کی دہائی مین تاجکستان اور چیچنیا  جنگوں میں  فرائض ادا کیے  تھے  تو ان کو اصل شہرت  شام  فوجی آپریشنز کےد وران ملی  تھی۔

روس نے  2015  کے ماہ ستمبر میں  براہ راست  شام کی خانہ جنگی میں  شمولیت اختیار کرتے ہوئے  شامی صدر بشار الا سد کی  حکومت کا تختہ الٹنے  کا سد باب کیا تھا۔ اگرچہ  روسیوں نے شام میں  داعش   دہشت گرد تنظیم  کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے جنگ میں داخل ہونے کا اعلان کیا تھا   تو بھی انہوں نے عمومی طور پر شامی مخالفین کو ہدف بنایا تھا۔  سرگے سروویکین  کو روسی فضائیہ کی  کمان  سونپی گئی تھی اور ’’اسکارچڈ ارتھ‘‘ کے نام سے بھاری بمباری  پر مبنی   حوصلہ شکن  حکمت عملی پر عمل  کیا ، یہاں پر بنیادی مقصد تمام  تر  بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرتے ہوئے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا یا  پھر  متعلقہ علاقوں کو خالی کراتے ہوئے  فتح سے ہمکنار ہونا تھا۔  ہزاروں کی تعداد میں شامی  شہری   شدید بمباری کے دوران  موت کے منہ میں  چلے گئے۔

شام میں اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد سرو ویکین کو نومبر 2017 میں روسی ہوائی و خلائی دستوں   کی کمان  سونپی گئی،  اب  انہیں  یوکیرین جنگ کے  ہیڈ کمانڈر  کے  فرائض سونپے گئے ہیں۔ اس فیصلے کا چیچن لیڈر رمضان قادروف اور روس  کی   زر فوج  ویگنر  کے بانی یوگینی  نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔  نئے  کمانڈر کی تقرری کے بعد روس کی جنگی حکمت ِ عملی  بھی بدلنی شروع ہو گئی، اولین طور پر  یوکیرین کے بنیادی ڈھانچے کو ہدف بنانے والے  گائیڈڈ میزائلوں اور  کامی کازے  کو فعال طریقے سے استعمال کیا جانے لگا۔  جیسا کہ صدر زیلنسکی نے بتایا ہے کہ ان حملوں سے یوکیرین کے  بجلی پیدا کرنے والے بنیادی ڈھانچے کا  کم از کم 30 فیصد تباہ ہو گیا  ہے۔  ا س  حکمت عملی نے   فرنٹ لائن پر یوکیرینی فوج کی  رفتار  اور طاقت کو نقصان  پہنچایا، ایک جانب  اضافی کمک کو فرنٹ لائن تک پہنچانے والے انسانی ذرائع   متاثر ہوئے جس  نے روسی فوج کے ہاتھ مضبوط کر دیے تو دوسری جانب  فرنٹ لائن  کے عقب کے بنیادی ڈھانچے کو ہدف بنائے   جانے نے یوکیرینی  فوج کے  حوصلے پست کرنے شروع کر دیے۔

اس طرح سرو ویکین کی تعیناتی اور  نئی حکمت عملی  کی بدولت روس  اس سے قبل کی کمزور پوزیشن پر قابو پانے  لگا،  روسی  فو  ج تاحال  دفاعی  حیثیت  کی حامل ہے تو بھی کم ازکم خرسون سمیت  ایک ہزار کلو میٹر  طویل فرنٹ لائن پر اس نے  اہم سطح کی مزاحمت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔  لیکن اس کے باوجود   عمومی  طور پر  روسیوں کو در پیش  مشکلات جاری ہیں۔ بالخصوص مغربی ممالک کی  طرف سے فراہم کردہ  اسلحہ  کے برخلاف  روسیوں  کو اسی رفتار سے  ہتھیاروں کی ترسیل  ممکن نہیں بن سکی۔موسم ِ سرما کی آمد کے ساتھ  دونوں  فریقین کے  لیے  کہیں زیادہ کٹھن  ایام   قریب آرہے ہیں۔

 



متعللقہ خبریں