پاکستان ڈائری- پاکستانی صحافی اسرائیل میں

پاکستان اور اسرائیل جب سے معرض وجود میں آئے ہیں ان کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اسکی وجہ فلسطین ہے کیونکہ اسرائیل کا جنم فلسطین کے رقبے پر قبضہ کرکے ہوا اور اسرائیل نے اس وقت سے آج تک فلسطنیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں

1886809
پاکستان ڈائری- پاکستانی صحافی اسرائیل میں

پاکستان ڈائری - 39

پاکستان اور اسرائیل جب سے معرض وجود میں آئے ہیں ان کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اسکی وجہ فلسطین ہے کیونکہ اسرائیل کا جنم فلسطین کے رقبے پر قبضہ کرکے ہوا اور اسرائیل نے اس وقت سے آج تک فلسطنیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس لئے پاکستان اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان کے سبز پاسپورٹ پر بھی یہ لکھا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل میں کارآمد نہیں ہے۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ہم اسکو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی یہ ہی رہی ہے۔ تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ پاکستانی صحافی اسرائیل جارہے ہیں۔ وہ کیو جارہے ہیں اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں اس پر ایک طویل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

وزارت خارجہ کے مطابق حالیہ دورہ ایک غیرملکی این جی او نے کیا تھا جوکہ پاکستان میں نہیں ہے اور مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا موقف واضح ہےْ۔ اگر موقف وہ ہی ہے تو پھر پاکستانیوں کو کیا ضرورت پڑگئ کہ وہ صہونی ریاست کا دورہ کریں۔ سابق وزیر شیخ رشید نے ٹویٹ کیا کہ وزارت خارجہ نے تسلیم کرلیا ہے کہ این جی او کے ذریعے پاکستانی وفد اسرائیل گیا۔ اسرائیل کوجب ہمارا ملک تسلیم ہی نہیں کرتا تو بیک ڈورسفارتی کاری کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہیں۔ ابھی جو وفد گیا ہے اس میں ایک غیر معروف آواز ٹی وی چینل سے دو سئنیر صحافی بھی گئے ۔ اس وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیل کے صدر سے ملاقات کی۔ اس دورے کا انعقاد شراکا نامی فورم نے کیا اور اسرائیل کے میڈیا نے اسکو بھرپور کوریج دی۔ ان کے ہی ٹویٹس سے پاکستانی شہریوں کو پتہ چلا کہ ایک وفد پھر سےاسرائیل کے دورے پر ہے۔ اس وفد کو نسیم اشرف نے ہیڈ کیا جوکہ پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ رہ چکے ہیں۔ وزارت خارجہ یہ کہہ کر چپ ہوجاتی ہے ہم نے کوئی وفد نہیں بھیجا لیکن یہ تو سوال ہورہا ہے کہ پاکستانی وہاں کیسے جارہے ہیں ؟ کیونکہ ہر کوئی دوہری شہریت کا مالک نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی جو وفود گیا تھا اس میں سئنیر اینکر احمد قریشی بھی شامل تھے ان کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور موجودہ حکومت نے انکو پی ٹی وی سے برطرف کردیا تھا۔ ان دونوں دوروں کے بعد بہت تنقید ہوئی تھی یہاں تک کہ سینٹ میں ان لوگوں کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو اسرائیل کا دورہ کرنے گئے تھے۔ پاکستانی فلسطین کشمیر کولے کر بہت حساس ہیں۔

اب بھی سوشل میڈیا صارفین سوال کررہے ہیں کہ اچانک اسرائیل کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔ میر محمد خان نے یہ سوال کیا اس دورے کے بعد کیا تحریک لبیک اور مولانا فصل الرحمان احتجاج کریں گے ؟ ہمارے ملک میں بہت سی جماعتوں کی سیاست اسرائیل دشمنی کی وجہ سے چلتی ہے۔ سیئنر صحافی ارشاد احمد عارف نے ٹویٹ کیا کہ اسرائیلی ٹی وی کے مطابق پاکستانی وفد اسرائل کے دورے پر ہے جس میں ۵ امریکن پاکستانی اور ۴ پاکستانی شہری شامل ہیں اور یہ اس سال کا دوسرا وفد ہے جو اسرائیل گیا اچانک سے پاکستانیوں میں اسرائیل کی محبت کیوں جاگ گئ ؟ صحافی عابد ملک نے ٹویٹ کیا کہ چار ماہ میں یہ دوسرا دورہ ہے۔ یہ خبر تمام اسرائیلی میڈیا میں رپورٹ ہوئی اور انیلا علی نے بھی اپنے ٹویٹر اکاونٹس سے تصاویرشئیر کی ۔ تاہم ۲۲ ستمبر کو دفتر خارجہ نے کہا کسی بھی پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔ تاہم تصاویر ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

اگر پاکستان کی فلسطین پر پالیسی وہ ہی ہےتو پھر وفود اسرائیل کیوں جارہے ہیں اس پر عوام سوال کررہی ہے۔ پاکستانی فلسطین کو لے کر بہت حساس ہیں ان دوروں سے نا صرف پاکستانی عوام بلکے فلسطینی عوام کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ عوام کی بڑی تعداد یہ سوال کررہے جب ہمارا پاسپورٹ وہاں کارآمد ہی نہیں ہے تو ہمارے صحافی وہاں کس کی دعوت پر جارہے ہیں اور کیا وہ پاکستانی حکام سے اجازت لے کرگئے ہیں کیونکہ اگر کسی ملک کے ساتھ سفارت تعلقات ہی نا ہوں تو وہاں جانا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ وفود کو لیجانے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں اس کا جواب حکومت اور وزرات خارجہ ہی دے سکتی ہے۔



متعللقہ خبریں