تجزیہ 52
ترکی کے شامی انتظامیہ سے تعلقات کی بحالی کے معاملے پر ایک جائزہ
چند ہفتو ں سے جاری بحث و مباحثہ اور جاری کردہ بیانات ترکی کے شام پالیسیوں میں تبدیلی کی تیاریوں میں ہونے کے حوالے سے قوی تاثرات سامنے آئے ہیں۔ صدر ایردوان کے یوکیرین سے وطن واپسی پر دیے گئے بیانات کے بعد اس معاملے پر بحث نے ایک نیا رخ حاصل کیا ہے۔ صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ’’ہم شام کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے مثبت اقدامات اٹھانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
اس بیان نے سوچی میں ایردوان۔ پوتن مذاکرات کے بعد کہیں زیادہ با معنی ماہیت اختیار کر لی ہے تو سوچی مذاکرات کا مرکزی ایجنڈہ بھی شام پر مبنی تھا۔ یہ بتایا گیا تھا کہ پوتن کی ایردوان کو شامی انتظامیہ سے بات چیت کرنے کی تجویز، انسداد دہشت گردی میں ایک حل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ چیز رو س کی پوزیشن کے اعتبار سے کسی قسم کی تبدیلی نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے تو بھی حالیہ ایام میں جاری کردہ بیانات ترکی کی شام پالیسیوں میں ’’اسد انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات‘‘ کے معاملے میں پالیسیوں میں تبدیلی کی تیاری میں ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
سیتا سیکیورٹی پالیسی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مرداد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔
اس سلسلے میں چار اہم معاملات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پہلا معاملہ فطری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2254 نمبر کی قرار داد کے دائرہ کار میں پر امن سلسلہ حل کو جاری رکھنا ہے۔ ترکی کی موجودہ پوزیشن مذکورہ قرار داد میں وضع کردہ روڈ میپ پر مکمل طریقے سے عمل درآمد کرنے پر مبنی ہے۔ دوسرےمعنوں میں ، آئین کو تحریری شکل دینا، انتخابات کا انعقاد اور عبوری حکومت کا قیام 2254 قرار داد کے بنیادی ستونوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ لہذا شامی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ہدف اس سلسلہ حل کو ایک جانب چھوڑنے کا مفہوم نہیں رکھتا۔
دوسرا معاملہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد پر مبنی ہے۔ حالیہ برسوں میں ادانہ معاہدے کا اکثر و بیشتر حوالہ دیے جانے کو مدِ نظر رکھنے سے دمشق اور انقرہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے معاملے میں کسی بنیادی متن کے وجود کا ذکر کرنا ممکن ہے۔ روس کی جانب سے ترکی کو اسد انتظامیہ کی جانب رخ کرنے کے عقب میں پوشیدہ منطق اس بنیادی متن پر قائم کی گئی ہے۔ البتہ شامی انتظامیہ کے ساتھ PKK کے خلاف جدوجہد کے معاملے میں ایک نئی شراکت داری کی کس طریقے سے نشاط کیے جا سکنے کا معاملہ فی الحال واضح نہیں ہے۔ اس بنا پر پالیسیوں میں تبدیلیاں لا سکنے کے لیے ترکی یا پھر شامی انتظامیہ میں سے کسی ایک کو PKK کے معاملے میں اپنی پالیسیوں میں جامع تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔اس نکتے پر ہم چند متبادل کا ذکر کر سکتے ہیں، یہ تمام تر متبادل قلیل مدت پر مبنی حل سامنے لا سکتے ہیں۔
پہلا متبادل اسد انتظامیہ کی جانب سے ترکی کی سرحدوں پر ڈھیرے جمانے والی دہشت گرد تنظیم PKK کو اس کا اثر رسوخ ہونے والے علاقوں سے دور ہٹانےاور اس کے ساتھ ساتھ منج اور تل رفعت جیسے علاقوں سے بھی PKK کے وجود کا خاتمہ کرنے پر مبنی ہے۔ اس چیز پر PKK کی جانب سے رضا کارانہ طور پر عمل درآمد کرنے کا احتمال دکھائی نہیں دیتا۔ اس صورت میں حکومت کو PKK کو فوج کی مدد سے وہاں سے نکالنے یا غیر مسلح کرنے کے ارادے کو پیش کرنا چاہیے۔ موجودہ حالات کو بالائے طاق رکھنے سے ملکی انتظامیہ کے پاس اس چیز کا امکان اور قابلیت ہونے کا اور نہ ہی PKK کے اس چیز کا ارادہ رکھنے کا کہنا ممکن ہے۔ ایک دوسرا احتمال اسد انتظامیہ کے بھی تعاون سے مشترکہ خطرے یعنی PKK کا ترکی اور شامی قومی فوج کے مشترکہ آپریشن کے ذریعے صفایا کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے ترکی کے قومی سلامتی خدشات کو رفع دفع کیا جا سکے گا اور اسد انتظامیہ کے PKK کے خلاف ہاتھ مضبوط ہو جائینگے۔ ٹھیک اس نکتے پر شامی انتظامیہ کے PKK کو ترکی کے خلاف استعمال کیے جانے کے حوالے سے خفیہ منصوبے زیر غور آتے ہیں۔ یعنی ترکی کی شامی انتظامیہ کے ساتھ PKK کے مسئلے کو ختم کرنے کے لیے قربت قلیل عرصے میں کسی حل کو سامنے لانے سے قاصر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اسوقت PKKکو ترکی کے خلاف استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کرنے والی شامی انتظامیہ ہم سب کے سامنے ہے۔
تیسرا مسئلہ ترکی سے شام میں عارضی تحفظ کی حیثیت کے تحت پناہ گزینوں کی واپسی ہے۔ جو کہ سب سے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے، اور سیاسی حل کے بغیر پناہ گزینوں کی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کو واپسی کا انتظار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں مہاجرین کے مسئلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ حالیہ برسوں میں حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کو لوٹنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کو بیان کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ لبنان اور اردن کی حکومتوں کے شامی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کی طرف سے واپسی انتہائی محدود سطح پر رہی ہے۔ ترکی میں پناہ گزینوں کے لیے محض اسد انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حکومتی علاقوں کو واپسی کو ممکن بنانا کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کو کسی روڈ میپ سے جوڑے بغیر آگے بڑھانا پناہ کے متلاشیوں کے لیے زیادہ مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے ماحول میں پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا واقعی ایک مشکل کام ہے جہاں حکومت بیرون ملک جانے والوں کو ’’غدار‘‘ سمجھتی ہے، ملک کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور حکومت کی معاشی طاقت محدود ہے۔ چوتھا اور شاید سب سے اہم مسئلہ مخالفین کی صورتحال ہے۔ اس وقت اسد انتظامیہ کی طرف سے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کے موقع پر جو شرائط رکھی گئی ہیں ان کو قبول کرنے کا مطلب اپوزیشن کے لیے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی دوسرا متبادل نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسد انتظامیہ کے ساتھ پورے فوجی اور سیاسی ڈھانچے کو ختم کر کے، خاص طور پر ہتھیار ڈال کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی ترکی ایسی صورت حال کو قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔لہذاجنیوا میں تین برسوں سے مصالحت قائم نہ ہونے والا معاہدہ اور مسلسل ملکی انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلے کو طول دینے کی حکمت عملی کی مثال ہمارے سامنے ہونے کے مد نظر رکھا جائے تو اس نکتے پر مخالفین اور حکومت کے درمیان ایک نیا رابطہ قائم کرنا مشکل ہو گا۔ ویسے بھی صدر ایردوان کے ’’مزید آگے کی سطح‘‘ کے حوالے سے بیان کو جاری کرنے کے وقت وائے پی جی اور اسد قوتوں کاالا باب پر میزائل حملہ ملکی انتظامیہ کے مخالفین کے زیر کنٹرول علاقوں کے بارے میں موقف کا مظاہرہ کرتا ہے۔
دوسری طرف یہ واضح ہے کہ حکومت اس مسئلے پر انتہا پسند پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ حکومت، جو ترکی کے شمالی علاقوں سے انخلا کیے بغیر ایسا کوئی عمل شروع نہیں کرنا چاہتی، ترکی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہے گی۔
مخالفین کے مسئلے کا اگر ادلیب کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ خطے میں معاملات کہیں زیادہ گھمبیر ہیں۔
جب آپ حزب اختلاف کے مسئلے کو ادلیب کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، تو یہ فوری طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ معاملات اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی ، اپنی شام پالیسی میں کوئی سٹریٹیجک تبدیلی کرنے کے بجائے مسائل کے حل میں ایک نئی پہل کرنے کا متمنی ہے۔