تجزیہ 32

روس ۔ یوکیرین جنگ اور ترک ڈراؤنز کے عالمی جنگوں پر اثرات

1809581
تجزیہ 32

روس کے یوکیرین پر  قبضے کے آغاز کے بعد یوکیرین کی توقع سے بڑھ کر مزاحمت  اور اس کے نتیجے میں روسی فوج کو پہنچنے والے بھاری نقصان  نے  روس کی فوجی صلاحیتوں پر بحث کھڑی کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  روس کے قبضے کے برخلاف  مغربی ممالک کی  اس ملک پر بتدریج  بڑھنے والی   پابندیوں نے روس کو قدرے ایک  محدود   سطح پر حرکات و سکنات کر سکنے پر  مجبور کیا ہے۔ علاوہ ازیں  مغرب   کے  روس  پر پابندیوں  اور یوکیرین کو فوجی امداد سے ہٹ کر  مزید  اقدامات  کر نے یا نہ کرنے کے جائزے لیے جا رہے  ہیں۔

سیتا  سیکورٹی  تحقیقاتی امور کے ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر  مراد یشل طاش کا اس موضوع پر جائزہ  ۔۔۔۔

اگرچہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ روس کے ساتھ تناؤ کو ایک خاص سطح پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ روس کے ساتھ جدوجہد کے اثرات دوسرے شعبوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں سے ایک شام ہو سکتا ہے۔ اگرچہ شامی اپوزیشن یوکرین روس جنگ کو روس پر تنقید کرنے اور مغربی ریاستوں کو شام میں کارروائی کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے، لیکن یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مغربی ممالک کے پاس شام کے بارے میں ابھی تک حقیقی نقطہ نظر موجود نہیں ۔ دوسری طرف یوکرین روس جنگ کے شام کے میدان پر اثرات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔

جنگ کے فوجی اثرات پر غور کیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ روسی فوج کو یوکرین کے خلاف شدید کمزوری کا سامنا کرنا پڑا۔ یوکرین کے دعوے کے مطابق تقریباً 18000 روسی فوجیوں کو بے اثر کر دیا گیا۔ روسی میڈیا کی ایک خبر میں، جسے بعد میں ہٹا دیا گیا، بتایا گیا کہ 9,861 روسی فوجی ہلاک جبکہ 16,153 روسی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضے کے سالوں کو مدنظر رکھتے سے یہ تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ روس نے جنگی طیاروں  سے لے کرفوجی  گاڑیوں تک ہزاروں کی تعداد میں  فوجی سازوسامان کا نقصان اٹھایا ہے۔ اس سمت میں، روسی دفاعی صنعت برآمدات کے لحاظ سے متاثر ہو سکتی ہے، اور ساتھ ہی شام میں حکومت کی فوجی امداد میں خلل پڑ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، ترکیہ کی دفاعی صنعت کی مصنوعات، خاص طور پر TB-2 Bayraktar کی میدان جنگ میں شاندار کامیابیاں شام کے میدان میں ترکیہہ کو روایتی طور پر مضبوط کرتی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 2020 میں سپرنگ شیلڈ آپریشن کے دوران بھی ترکیہ نے ایک ہفتے تک حکومتی عناصر پر جو تباہی مچائی وہ کافی تباہ کن تھی۔ اس نقطہ نظر سے، حقیقت یہ ہے کہ ترکیہ کے ڈرؤانز  بائراکتار  کے ساتھ ساتھ TB-3، آکنجی  اے اینڈ بی ، حصار A+ اور حصار O+ بطور فضائی دفاعی نظام اس کی انوینٹری کے اہم حصوں میں سے ایک ہوں گے۔ جو کہ  مستقبل قریب میں ترکیہ کو روایتی جنگ میں ایک نمایاں مقام  دلا سکتے ہیں۔

اگرچہ ان افواہوں کی تصدیق کی گئی ہے کہ روس ویگنر عناصر کو شام سے یوکرین کی سرزمین کی طرف لے جا رہا ہے، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ روس کی طرف سے یوکرین کی جنگ میں اسد کی حامی ملیشیا کی شمولیت کے نہ صرف روس بلکہ اسد حکومت کے لیے بھی بڑے نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مغربی دنیا اسد کے خلاف  فوجی جدوجہد کو ایک طرف رکھ بھی  دیتی ہے تو یہ حقیقت  ہے کہ اسد حکومت اور اس کی موجودگی سے مغربی دنیا کی سلامتی کے لیے پیدا ہونے والے خطرات  اس  عمل  کو الٹی جانب  موڑ سکتے ہیں۔

نتیجتاً یوکیرین  جنگ کے  شام پر اثرات  کی بنیادوں میں نفسیاتی  بالا دستی  کے اب ترکی کے ہاتھ میں آنے  کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  روایتی  عسکری ٹیکنالوجی میں  ترکی کی حاصل کردہ  کامیابیاں   اور محل  و وقوع کی  فوقیت  بھی  اس کے حق میں ثابت ہو سکتی ہے۔  ان تمام عناصر کے   یکجا ہونے پر یہ کہنا ممکن ہے کہ  ترکی کی روس کے  سامنے  سود ابازی  کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔



متعللقہ خبریں