تجزیہ 24

یوکیرین ۔ روس بحران کے حل میں ترکی کی کوششیں اور جنگ کی صورت میں خطے پر اثرات

1777211
تجزیہ 24

سیتا  خارجہ پالیسی محقق پروفیسر ڈاکٹر  مراد یشل طاش کا  ترکی   کی  یوکیرین پالیسیوں   سے متعلق   جائزہ  ۔۔۔

ترکی کی یوکیرین  بحران    سے متعلق پالیسیوں کا تعین کرنے والے 4 پیرامیٹرز موجود ہیں۔  پہلا  پیرا میٹر  ترکی  کے یوکیرین کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر مبنی ہے۔ انقرہ  اور کیف ایک طویل عرصے سے سٹریٹیجک  سطح پر ایک دوسرے  سے منسلک ہیں۔ سیاسی، سیکیورٹی اور اقتصادی تعلقات سمیت  دفاعی صنعتی شعبے میں   ان ممالک کے تعلقات  انتہائی  اچھی سطح پراستوار  ہیں۔ یوکیرین، ترکی کے بڑے ترین تجارتی ساجھے داروں میں سے ہے، دو طرفہ تجارتی لین دین حال ہی میں ساڑھے 7 ارب ڈالر سے بھی تجاوز   کر چکا ہے۔  گزشتہ برس 20 لاکھ سے زائد یوکیرینی شہریوں نے ترکی کی سیر و تفریح کی ہے۔ ترکی نے  یوکیرین کو ہر طرح  کے بیرونی خطرات کے   بر خلاف   اس کی طاقت میں  اضافے کرنے والے مؤثر  ڈراؤنز فروخت کیے ہیں۔  دونوں ممالک نے ترکی کے لیے کلیدی    حیثیت کی حامل بعض  سٹریٹیجک  موٹروں کے فروغ  کے لیے  ایک مشترکہ منصوبے  کا آغاز  کیا ہے۔

ترکی  کے  یوکیرین بحران  میں  حیثیت کو شکل دینے والا ایک دوسرا  پہلو  اس  کی  روس سے قربت اور تعلق ہے۔  ترکی روس کے بارے میں سیکٹرل  پالیسیوں پر  عمل  پیرا ہے۔  زیادہ تر مغربی ممالک کی جانب سے  ترکی  سے سر د مہری سے کام لینے کے  دور میں  انقرہ کے ماسکو سے تعلقات خاصکر بعض معاملات میں قدرے اہمیت کے حامل ہیں۔  عمومی طور پر     شام اور لیبیا  بحرانوں میں روس کے ساتھ متضاد  نظریے کے مالک ترکی نے  ان مسائل سے باہمی تعلقات کو متاثر ہونے کی اجازت نہ دی تھی۔

ایک طرف ترکی اور روس نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت روس ترکی میں جوہری ری ایکٹر بنائے گا۔ دوسری جانب جب مغربی ممالک نے انقرہ کو موثر دفاعی نظام فروخت کرنے سے انکار کیا تو ترکی کی جانب سے روس سے S-400 فضائی دفاعی نظام کی خریداری پر امریکہ نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ روس، ترکی کے بڑے اقتصادی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ کم از کم، ترکی روسی گیس کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہے اور روسیوں کے لیے ایک اہم سیاحتی مقام  کی حیثیت  رکھتا ہے۔ یوکرین کے بحران میں ترکی کی سب سے اہم ترجیحات میں سے ایک روس کو پس پشت نہ ڈالنا اور بات چیت کے راستے کھلے رکھنا ہے۔

ترکی کی یوکرین پالیسی کا تیسرا پیرامیٹر نیٹو اتحاد ہے۔ اگر نیٹو یوکرین کے بحران میں براہ راست مداخلت کرتا ہے، اور اگر تمام رکن ممالک اس معاملے پر متفق ہو جاتے ہیں تویقیناً ترکی کو بطور رکنِ اتحاد روس کے خلاف موقف اختیار کرنا ہوگا۔ بحران کا فریق بننا جرمنی جیسے نیٹو کے بہت سے ممبران  کی طرح  اس سے  ترکی کو بھی نقصان  پہنچے گا۔  دوسرے الفاظ  میں، نیٹو کے کچھ ارکان، جیسے پولینڈ اور بالٹک ریاستیں، روسی خطرات کے سامنے   بے یارو مدد گار ہیں ، جب کہ دیگر ارکان جیسے جرمنی اور ترکی، روس کے ساتھ ایک دوسرے پر منحصر تعلقات رکھتے ہیں۔ لہذا پہلا گروپ نیٹو سے روس کے خلاف اقدامات کرنے  کا ارادہ رکھتا ہے تو  دوسرا گروپ سفارتی حل کی  تلاش کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔

چوتھے پیرا میٹر کریمیا  کریمیا  جزیرہ نما  علاقے میں  کریمیا ئی ترک  عوام    کی صورتحال ہے۔  ترکی،  اپی سر زمین کا روس کی طرف سے الحاق کیے جانے  سے  نقصان  برداشت کرنے والے کریمیائی تاتاریوں کے   اس مسئلے سےمزید متاثر ہونے   کے حق میں نہیں ہیں۔  ترک عہدیدار  دونوں ریاستوں کے درمیان  جنگ چھڑنے کی صورت میں    اولین طور پر نقصان برداشت کرنے والے  کریمیائی تاتار ہونے سے بخوبی  آگاہ ہے، اس بنا پر   یہ  کریمیا کے معاملے میں یوکیرین   کے نظریات  کی حمایت کرتا ہے۔

مختصراً  مذکورہ  پیرامیٹرز کی بنا پر ترکی،   یوکیرین بحران  میں  غیر جانبدار پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔  ترکی،  یوکیرین اور روس کے ساتھ دو طرفہ  دارومدار کے حامل تعلقات  کا  حامل ہونے کے باعث  اس بحران سے خطے کے تمام  تر ممالک کو زد پہنچانے والی کسی بڑی جنگ  کی ماہیت اختیار کرنے   کے حق میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترک  حکام بحران کا پر امن  حل   تلاش کرنے کی  کوششوں میں مصروف ہیں۔



متعللقہ خبریں