پاکستان ڈائری - او آئی سی اجلاس

۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ سے شروع ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا افغانستان میں انسانی بحران ، معاشی صورتحال اور بچوں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرنا شامل تھا

1751501
پاکستان ڈائری - او آئی سی اجلاس

پاکستان ڈائری - 53

پاکستان کے لئے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ پاکستانی حکومت نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس کی میزبانی کی۔ اسلام آباد میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تاکہ وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے عام شہریوں کا مشکلات کا سامنا نہیں ہو۔ پورے شہر کو برقی قمقموں سے سجایا گیا۔

اسلام آباد کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل تھی اس آرائش کا سہرا سی ڈی اے اور ڈی سی اسلام آباد کے آفس کو جاتا ہے۔ اسلام آباد کی پولیس جگہ جگہ پر پہرہ دے رہی تھی تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ وقوع پذیر نا ہو ۔ اس ہی طرح حکومتی ارکان نے بھی بہت محنت کی اور فارن آفس کا عملہ اس حوالے سے کام کرتا رہا تاکہ ایونٹ کامیاب ہوسکے۔ ایسا ہی ہوا ایک شاندار ایونٹ کا انعقاد ہوا جس میں  اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ سمیت ۷۵ وفود نے شرکت کی۔ آو ائی سی اسلامی ممالک کی تنظیم ہے جوکہ اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی تنظیم ہے۔ اس کے ۵۷ ممبر ہیں ۔ ۱۹۶۹ میں رباط  میں ایک خصوصی اجلاس ہوا تھا جس کے بعد اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئ۔۔ اس کی بنیاد کے پیچھے ایک واقعہ تھا جب ایک مسیحی نے مسجد اقصی میں صلاح الدین ایوبی کے دور کے منبر کو آگ لگا جس سےمسجد اقصی  کی چھت کو نقصان ہوا۔ ۲۴ ممالک اس حادثے کے بعد اکھٹے ہوئے انہوں نے اس اقدام کی مذمت کی۔سب سے پہلی او آئی سی میٹنگ چھ ماہ بعد جدہ میں ہوئی جس کے بعد اس کے سیکٹریٹ قائم کردیا گیا۔ چالیس سال میں اس کی رکن ممالک کی تعداد ۳۰ سے بڑھ کر ۵۷ ہوگئ۔

اس کے ممبر ممالک میں آذربئجان، البانیا ، اردن ، افغانستان ، پاکستان ، متحدہ عرب امارات ، انڈونیشیا ، ملائشیا، ازبکستان ، یوگنڈا ، بحرین ، برونائی ، بنگلہ دیش ، ترکی ، تاجکستان ، ترکمانستان ، تنوسیا، الجیریا، سعودیہ عرب ، سینگال ، سوڈان ، سریا، صومالیہ ، گمبیا، قطر ، فلسطین ، کویت لیبیا ، مالدیپ ، مالی، مصر ، موراکو، مورطانیہ،نیجر ، یمن، نائجیریا اور دیگر شامل ہیں۔

یہ تنظیم اسلامی ممالک کے حقوق کا احاطہ کرتی ہے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ چاہیے معاشی امور ہوں یا سائنس ٹیکنالوجی ، ثقافتی امور یہ تنظیم اسلامی ممالک کو متحد رکھتی ہے۔ پاکستان نے اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کی تاریخی میزبانی ۱۹۷۴لاہور میں کی۔اس کانفرنس میں اہم فیصلے کئے گئےپاکستان کی مساجد شاہراہیں اور اہم مقامات کو ان سربراہان کے نام پر رکھا گیا جن میں قذافی اسٹیڈیم ، شاہ فیصل مسجد ، فیصل ائیر بیس وغیرہ اہم ہیں۔

اس کانفرنس کے بعد اسلامی ممالک بہت قریب آئے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک بیشتر لیڈران اپنی طبعی عمر کو نہیں پہنچ سکے اور پراسرار طریقے سے دنیا سے گئے۔اس کے بعد اس فورم کی افادیت میں کمی ہوئی لیکن اب لگ رہا ہے کہ شاید یہ اپنا وہ ہی مقام حاصل کرلے گا جو ایک زمانے میں اسکا تھا۔ اس فورم کو کشمیر فلسطین سریا روہنگیا تمام مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرنا ہوگی۔

اب پاکستان میں ہونے والا اجلاس بہت غیر معمولی نوعیت کا تھا جس کا موضوع افغانستان میں حالیہ انسانی بحران کا حل نکالنا تھا۔ اس سے پہلے یہ اجلاس ۱۹۸۱ میں پاکستان میں ہوا تھا جب روس افغان وار کا آغاز ہوگیا تھا۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ سے شروع ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا افغانستان میں انسانی بحران ، معاشی صورتحال اور بچوں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرنا شامل تھا۔ اس اجلاس میں او آئی سی کے سیکٹریری جنرل ابراہیم طہ، اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر ڈاکٹر محمد جاسر، افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور سعودیہ عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے خصوصی شرکت کی ۔ اسلامی ممالک ک علاوہ مبصرین نے بھی اس اجلا س میں امریکا برطانیہ فرانس چین روس کے مندوبین نے شرکت کی اس کے ساتھ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شریک تھے۔ پاکستان نے اپنی اسمبلی میں اس ایونٹ کو ہوسٹ کیا جس میں ۲۰ وزرائے خارجہ ۱۰ نائب وزرا خارجہ اور ۷۰ وفود نے شرکت کی۔

یہ خصوصی اجلاس سعودیہ عرب نے افغانستان کی صورتحال پر طلب کیا تھا اور اس کی میزبانی پاکستان نے کیْ۔ اس حوالے سے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ۵ ہزار پولیس کے اہلکار اس حوالے سے تعینات تھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خود مندوبین کا استقبال کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کی صورتحال سنگین ہے عالمی دنیا خاموش ہے۔ اس انسانی بحران پر فوری طور پر اقدامات کرنے ہونگے۔ انہوں نے کہا افغانستان چار دہائیوں سے افراتفری خانہ جنگی کا شکار ہے اوراب یہ افغان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہمیں خواتین اور بچوں کی مدد کرنا ہوگی انکے مسائل حل کرنا ہونگے۔ انہوں نے کہا کشمیر اور فلسطین ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا پر بھی بات کی۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی اس اجلاس کا خیر مقدم کیا ہے انکے نمائندے تھامس ویسٹ نے اس کاوش کو سراہا۔ او آئی سی نے اس اجلاس میں ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ کی تشکیل کا اعلان کیا۔ حسن ابراہیم طحہ نے کہا ہم افغان حکام سے رابطہ میں ہیں اور عطیات جمع کرنا شروع کردیں گے۔اب میکنزم اور اکاونٹ بن گیا ہے اس میں عطیات آئیں گے۔

افغانستان میں انسانی بحران میں بھوک غربت ادویات کی قلت سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمند کررکھے ہیں۔ اس حوالے سے بھی او آئی سی امریکہ اور اقوام متحدہ سے مذاکرات کرے گا۔ اس کے ساتھ افغانستان کے عوام کے لئے عوامی ادارہ صحت کے ساتھ کورونا ویکسین کی فراہمی بھی یقینی بنائے جائے گئ۔

او آئی سی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین اور بچوں کے حوالے سے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں اور بزرگوں کے لئے بھی امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے۔ معاشی بدحالی سے انہتاپسندی دہشتگردی کو فروغ مل سکتا ہے۔ اس لئے عالمی دنیا ڈونرز این جی اوز فوری طور پر افغانستان میں امداد کا سلسلہ شروع کرے۔ امداد میں پینے کا صاف پانی خوراک ادویات اور ویکسین ہونا چاہیں۔ اس کے ساتھ وہاں اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز ہونا چاہئے۔ عالمی ادارہ خوارک کے مطابق اس وقت افغانستان کی آدھی آبادی بھوک کے بحران میں مبتلا ہے اس ہی لئے او آئی سی اس بات پر ضرور دے رہی ہے کہ کہ عورتوں ، حاملہ خواتین ، دودھ پلانے والی ماوں بچوں اور بزرگوں کی غذائی ضروریات کا خیال کرنا ہوگا۔

افغانستان کی آبادی تین کروڑ ۸۰ لاکھ ہے انکو عالمی دنیا نظر انداز نہیں کرسکتی ۔ ان کے لئے فوڈ سیکورٹی ، کورونا ویکسین ، انسانی امداد کے لئے اکاونٹ اور فنڈ، قائم کیا جارہا ہے۔ پاکستان اس وقت تیس لاکھ مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اس لئے اب دیگر ممالک کو بھی سامنے آنا چاہئے۔

 



متعللقہ خبریں