تجزیہ 03

اسد اور اس کے اتحادی روس کی قوتوں کے ادلیب پر دوبارہ سے حملوں کے اصل مقاصد پر ایک جائزہ

1707238
تجزیہ 03

اسد انتظامیہ  سے منسلک  قوتوں نے روسی فضائی  تعاون  کے ساتھ حالیہ ایام میں دوبارہ سے شامی  علاقے ادلیب   کو  نشانہ بنانا شروع کر دیا  ہے۔  شامی مخالفین کےزیر کنٹرول اور تقریباً 40 لاکھ شہریوں  کے مقیم ہونے والے  علاقے کو  ہدف بنائے جانے  نے وسیع پیمانے  کے انسانی بحران کو  دوبارہ سے  شہہ دی ہے۔ترکی  کے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے    تدابیری  عسکری اقدامات اٹھاتے وقت  دنیا بھر کی خاموشی اسد انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں  کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

سیتا  خارجہ پالیسی تحقیق دان جان اجون کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔

شامی حدود میں عسکری  پیش رفت اور جھڑپیں حالیہ ایام میں بظاہر   حالات کے پر سکون  ہونے  کا تاثر دے رہی  تھیں تو  اسد قوتوں نے روسی فوجی دستوں کے تعاون  سے دوبارہ  سے ادلیب کو ہدف بنانا شروع کر دیا ہے۔  اس سے قبل سوچی میں  سرانجام پانے والے  سربراہی اجلاس کے دوران ترکی اور روس کے مابین  علاقے  سے متعلق طے پانے والی مطابقت  کے تحت تصادم  میں وسیع پیمانے کا خاتمہ ہوا تھا۔  تا ہم ، گزشتہ چند ہفتوں  سے تیزی آنے والے حملوں کا ایک بار پھر مشاہدہ ہونے لگا ہے۔ اسد قوتوں کے  خشکی سے  جبکہ روسی قوتوں کے فضا سے خاصکر ایم ۔فور  لائن کے جنوب میں واقع جبلِ زاویہ  کو نشانہ بنانے کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ بنیادی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے سے یہ کہنا ممکن ہے  کہ  شامی مخالف عناصر اور ترک فوج  کو شمالی علاقہ جات کی جانب پیچھے دھکیلنے   کے لیے  فوجی دباؤ قائم کرنے  کی منصوبہ بندی  کی جا رہی ہے ۔ جبلِ زاویہ  علاقہ جغرافیائی طور پر ادلیب  کے باقی ماندہ علاقوں   کے مقابلے میں  نسبتاً  زیادہ بلندی پر واقع ہونے  والا ایک سٹریٹیجک علاقہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسد انتظامیہ قوتیں یہاں پر ڈھیرے جماتے ہوئے  شمالی ادلیب کی فرنٹ لائنز  پر فوجی طاقت  قائم کرنے اور قدم بہ قدم  علاقے کو اپنے زیر کنٹرول لینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس طرح  ایم4 لاجسٹ  پٹی پر بھی  اپنی حاکمیت قائم کرتے ہوئے مشرقی۔مغربی محور پر حلپ سے  لازکیہ ۔تارتوس  کی جانب  نکلنے والی مرکزی ہائے ویز کو اپنی زیر نگرانی  لینا ان کے اہداف میں شامل ہے۔

ملکی انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے جنونی منصوبوں کا ہرجانہ ہمیشہ کی طرح شہری  ادا کر رہے ہیں۔ ابھی سے  ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کو شمالی علاقوں کی جانب مجبوراً نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔  کسی ممکنہ وسیع پیمانے کی  عسکری کاروائی کے باعث  شہریوں کی ایک کثیر تعداد محفوظ مقامات کو  ہجرت کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔  ترکی  ممکنہ انسانی بحران کے پیش ِ نظر خطے میں  دوبارہ سے اپنی فوجی حرکات و سکنات  کو بڑھاتے ہوئے اسد انتظامیہ اور اس کے اتحادی عناصر کے فوجی طریقے سے باز رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس نکتے پر عالمی برادری  اور خاصکر امریکہ   کو  بالخصوص روس  پر دباؤ ڈالتے ہوئے کسی  نئی فوجی  کاروائی کی کوشش کا بھاری خمیازہ بھگت سکنے کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ شام میں  نئی جھڑپوں اور جنگ کی زمین ہموار ہوتی جائیگی۔



متعللقہ خبریں