تجزیہ 01

ترک مسلح افواج کی دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی عراق و شام میں شاخوں کے خلاف مؤثر کاروائیوں پر ایک نظر

1702057
تجزیہ 01

ترکی  کی انسدادِ دہشت گردی کی جدوجہد پوری سرعت سے جاری ہے تو ترک مسلح  افواج اور قومی خفیہ سروس ، متعدد ممالک میں بیک وقت عسکری  اور ٹارگٹ آپریشنز کے ذریعے تنظیم کے وجود کو ختم کرنے پر عمل پیرا ہے۔ تاہم حالیہ ایام میں خاصکر  شام میں اوپر تلے  اہم سطح کی عسکری کاروائیوں کی بدولت تنظیم  کے شام میں بازو  وائے پی جی/ پی وائے ڈی  کو بھاری نقصان پہنچایا گیا ہے۔  یہ تنظیم امریکی  تحفظ  کے ساتھ  شام میں اپنے وجود کو جاری رکھے ہوئے ہے تو ترکی  نے اب اس کو مزید مؤثر طریقے سے اپنا ہدف بنانا شروع کر دیا ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی  محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

دہشت گرد تنظیم PKK   نےترکی کی سرحدوں کے اندر دہشت گرد سرغنہ عبداللہ اوجالان  کی جانب سے 1970  کی دہائی کے وسط میں قائم کیے جانے کے بعد خاصکر شام کے تعاون  کے ساتھ علاقے میں اپنا  اثرِ رسوخ قائم کر لیا اور اس نے شام کے اندر  منظم طریقے سے کاروائیاں کرنی شروع کر دیں۔  اسد انتظامیہ نے والد اسد  کے دور میں لبنان میں بقا کیمپوں میں  تنظیم کے کارندوں کی تربیت کرتے ہوئے  انہیں ترکی کے برخلاف استعمال کرنے کی سعی کی  تا ہم ترکی کی فوجی مداخلت کے خطرات کے پیش نظر پیچھے قدم ہٹاتے ہوئے  اوجالان اور تنظیم کے دیگر کرتے دھرتوں کو ملک بدر کر دیا۔ تا ہم انقلابِ شام   برپا ہونے کے ساتھ ہی اسد انتظامیہ نے دوبارہ سے  PKK  کو  انقلابی قوتوں   اور ترکی کے خلاف  استعمال کرنے کے لیے   تنظیم کے شام میں ڈھانچے پی وائے ڈی/ وائے پی جی  سے تعاون کو پختہ کیا اور متعدد علاقوں سے انخلا کرتے ہوئے  انہیں دہشت گرد تنظیم کے  رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

دہشت گرد تنظیم  نے ملکی انتظامیہ کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے باہمی تعاون کو فروغ دیا  اور بیک وقت شمالی شام کے متعدد  علاقوں میں اپنی حاکمیت  قائم کر لی، بعدازاں داعش کے خلاف جنگ کرنے  کا روپ دھارتے ہوئے  امریکہ کا تعاون حاصل کیا اور علاقے میں اپنے پاؤں مزید جما لیے۔  خاصکر  سال 2014 کے وسط سے لیکر دہشت گرد تنظیم پی وائے  ڈی/ وائے پی جی نے امریکہ سے مدد لیتے ہوئےشام کے شمال مشرقی علاقے میں ایک وسیع رقبے پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی  اور راقعہ، دیروزور  جیسے توانائی وسائل سے مالا مال علاقوں میں  امریکی فوجیوں کے ہمراہ     نگران مراکز قائم کر لیے۔

ان کا بنیادی  اور اصل مقصد  اپنے زیر کنٹرول عفرین  سمیت شام کے مشرقی علاقوں کا ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرتے ہوئے  پیش قدمی کرنا اور  بالا آخر مشرقی  بحیرہ روم کے ساحلوں تک رسائی قائم کرتے ہوئے  سمندر ی حدود  کو بھی اپنے   کنٹرول میں  لینا اور اس طریقے سے ایک خود مختار انتظامی ماڈل  کے  تحت  مختصر ریاست قائم  کرنا تھا۔ لیکن  ترکی نے  15 جولائی   بغاوت اقدام کے   فوراً بعد اولین طور پر فرات ڈھال کارائی، بعد ازاں شاخِ زیتون کاروائی  کی بدولت   تنظیم کے ان منصوبوں  پر پانی پھیر دیا۔   بعد  کے ایام میں  چشمہ امن کاروائی اور  فرات  کے مشرقی کنارے پر واقع  تل عبید  اور راس العین   کو  دہشت گرد تنظیم  سے پاک کرتے ہوئے   ’’ریاستِ پی کے کے‘‘  منصوبے  پر کاری ضرب لگانے میں کامیابی حاصل  کر لی ۔  اس دوران  ترکی  نے  امریکی فوجیوں کی  ایک کثیر تعداد کو علاقے سے انخلا کرنے پر مجبور کر دیا تو   روس  اور اسد انتظامیہ  کی قوتوں  نےبھی فرات کے  مشرق میں نمایا  ں علاقوں  میں ڈھیرے جما لیے۔

اس تمام تر پیش رفت کے باوجود  دہشت گرد تنظیم پی وائے ڈی۔ وائے پی جی کا  فرات کے مغربی کنارے پر واقع تل رفعت اور منبج علاقوں میں  اور فرات کے مشرق میں  عین الا عرب سے لیکر  مالیکیہ  تک، جنوب کی جانب راقعہ اور دیروزور کے ایک حصے پر تا حال وجود جاری ہے۔  ترکی ایک جانب سے امریکہ اور روس  پر دباؤ ڈالتے ہوئے  دہشت گرد تنظیم کے اثرِ رسوخ کو معدوم کرنے  کی کوشش میں ہے تو دوسری جانب  رابطہ لائنز پر دہشت گردوں کے خلاف مداخلت کرتے ہوئے قومی خفیہ سروس   کے مؤثر  ٹارگٹ آپریشن اور مسلح ڈراؤنز  کی مدد سے  تنظیم کے نام نہاد سرغنوں کو ناکارہ بنا رہا ہے۔  یہ  دہشت گرد تنظیم کے ماتحت  زندگی گزارنے پر مجبور  کُردی اور عربی   باشندوں  سے تعاون  کرتے ہوئے   انہیں  دہشت گردوں  سے  محفوظ رہنے اور  اس ضمن میں رہنمائی  فراہم کر رہا ہے۔

ترکی بھر میں  کم  ترین سطح تک لائی جانے والی دہشت گرد تنظیم عراق میں  بھی مؤثر عسکری کاروائیوں کی بنا پر  ایک  مختصر سے رقبے پر پھنس چکی ہے تو یہ ابھی بھی شام میں امریکی  سرپرستی میں  اپنے  وجود کو جاری رکھنے کی جہد میں ہے۔ تا ہم ترکی ، ان حقائق سے بھر پور طریقے سے آگاہ ہونے    کے ساتھ  شام میں  دہشت گردوں کے لیے کوئی با حفاظت مقام موجود  نہ ہونے کا ہر موقع پر مظاہرہ کرتے ہوئے  یہاں پر اس کے وجود  کو مؤثر  طریقے سے نشانہ بنانے پر عمل پیرا ہے۔



متعللقہ خبریں