اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب27

کوما گینے کی تہذیب

1700318
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب27

بستیوں سے دور ، ایک  سڑک پر حد نگاہ ایک مشکل چڑھائی آپ کے منتظر ہے۔  دو ہزار سال پہلے یہ سڑک  جو صرف پیدل یا خچر سے استعمال کی جاتی تھی ، اگر آپ چاہیں تو آج گاڑی کے ذریعے عبور کر سکتے ہیں جس  کے تحت صرف اس طرح  چند منٹ تک پہنچنا ممکن ہے جہاں سے آپ  طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کو دنیا کے خوبصورت ترین انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔

 

اناطولیائی جغرافیہ میں ، ان ریاستوں کے بادشاہ اور شہنشاہ  بھی ایس قدر ان  تہذیبوں ، ثقافتوں اور ریاستوں کی وضاحت کے مستحق ہیں۔ان شاہوں نے کچھ جنگوں کے ساتھ تاریخ پر اپنےنشان چھوڑ ے ہیں ، کچھ امن معاہدوں کے ساتھکچھ دنیا کے سامنے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لیے بہت بڑی یادگاریں بنائی ہیں ، کچھ اپنی لافانییت کا اعلان کرتے ہیں کچھ بادشاہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ   زندہ خدا ہیں ۔

کوماگینے تہذیب  کا گہوارہ پہاڑ نمروت ہے جہاں کے شاہ کا نام   آنتیو خوس تھاجس نے دیو قامت دیوتا کے مجسمے بنائے تھے۔

 

کوما گینیے تہذیب ایک ایسے خطے میں قائم کی گئی تھی جس میں موجودہ شہر ادیامان، قہرمان مراش اور غازی آنتیپ  اور کوہ نمرود کے علاقےشامل ہیں۔ کوما گینیے ایک طرف   رومن سلطنت اور دوسری طرف پارس سلطنت سے متصل تھی۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے ، یہ سیاسی ، سماجی اور معاشی لحاظ سے ایک بہت اہم خطے میں واقع تھی۔ یہ دریائے فرات اور ان میدانی علاقوں پر حاوی ہے جو اسے سیراب کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی ریاست دیودار کے قیمتی درختوں اور دیگر قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ اس کے چھوٹے سائز کے باوجود ، کوما گینے مشرق اور مغرب کے درمیان بفر کے طور پر کام کرتی  تھی۔ ان کے بادشاہ اینٹیو خوس نے بغیر لڑے اپنے ملک پر تقریبا چالیس سال حکومت کی کیونکہ اس کے پاس سیاسی ذہانت تھی۔ درحقیقت ، بادشاہ کا باپ فارسی نژاد  اور اس کی ماں ہیلینک نژاد  تھی۔ ۔ کوماگینے کے بادشاہ کا مقصد اپنے وقت کی دو غالب ثقافتوں کو اکٹھا کرنا  تھا ، اور وہ فارسی اور ہیلینک دونوں دیوتاؤں کو مقدس سمجھتا  تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس دیوتاؤں کے 10 میٹر کے شاندار مجسمے  کوہ نمروت پر بنائے گئے  جو ہزاروں سال بعد دیوتاؤں کے تخت کے نام سے مشہور ہوئے۔

 

کوماگینے بادشاہ کے پاس یہ مجسمے صرف مشرقی اور مغربی ثقافتوں کو جوڑنے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے بلکہ اس نے یہ بے مثال شاندار مجسمے  دیوتاؤں اور آباؤ اجداد کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی لافانی اور خدا ئی بادشاہت ثابت کرنے کے لیے بنائے  تھے۔  ان کی تیاری میں کثیر رقم خرچ کی گئی تھی ۔

آج  یہ  مجسمے مشرقی ، مغربی اور شمالی  علاقے میں واقع ہیں مشرقی اور مغربی  علاقوں پر دیوتاؤں کے دیو ہیکل مجسمے ہیں جو اپنے تختوں پر اپنے چہروں کے ساتھ  طلوع آفتاب  کا نظارہ  کرنےکے لیے بیٹھے ہیں۔  کوماگینے کی تہذیب آب و ہوا اور موسمی حالات سے زیادہ متاثر تھی۔  یہاں مجسموں کے سر آج ان کے جسموں کے سامنے رکھے گئے ہیں کیونکہ وہ گر گئے تھے ہے۔  یہ کافی دلچسپ ہے کہ اس دور کی ٹیکنالوجی  سے دیوتاؤں کے دیو ہیکل مجسمے کیسے بنائے گئے ۔

ماہرین آثار قدیمہ اس بات پر متفق ہیں کہ پہاڑ پر موجود چونے کے پتھروں کو مجسمہ بنا کر مجسمے میں تبدیل کر دیا گیا۔

 

شاہ آنتی خوس   کے بنائے ہوئے مجسمے دراصل مقبرے اور ٹمولس کے  اطراف میں ہیں جسے اس نے اپنی موت کے بعد دفن کرنے کے لیے بنایا تھا۔ تختوں کے پیچھے جہاں مجسمے  ہیں ، وہاں 200 سطروں سے لمبا ایک نوشتہ ہے۔ ہیلینک انداز میں لکھے گئے اس عہد نامہ کی تحریر کی بدولت ، کوما گینے  کی بادشاہی کا معمہ حل ہوگیا ہے۔  اس نوشتہ میں  بادشاہ نے بتایا کہ ٹیومولس کے اندر اس کا اپنا مقدس مقبرہ ہے  اور وہ ان لوگوں کی بھی تعریف کرتا ہے جو عبادت کے لیے آتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتا ہے جو برے ارادوں سے آتے ہیں۔

 

 وہ کہاتا ہے کہ ان دیہاتوں کی آمدنی کے ساتھ جنہیں میں نے اپنے شاندار نسب کے مقدس اعزاز کے لیے وقف کیا ہے ، وہ ان قربان گاہوں پر وافر اور بھرپور بخور اور جڑی بوٹیاں پیش کرے ، اور مجھے اور دیوتاؤں کو دلکش نذرانے پیش کرے ، انہیں یہاں آنے والے تمام مقامی اور غیر ملکی مہمان نوازی کے ساتھ خوش آمدید کہنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دعوت خوشگوار ہو۔

==

کوماگینے کے بادشاہ کا مزار اناطولیہ میں سب سےانوکھی شکل میں ہے کیونکہ پسے ہوئے پتھروں کے ڈھیر لگانے سے بنایا گیا ہے۔

 یہ مجسمے نمروت پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو کہ اس علاقے کا سب سے اونچا مقام ہے ۔ تدفین خانے کی چوٹی  جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی  یہ  50 میٹر ہے۔ ٹیومولس کھجور کے سائز کے کٹے ہوئے پتھروں سے تشکیل دیا گیا تاکہ قبروں کی چوری سے بچا جا سکے۔ کوماگینے کے بادشاہ کی طرف سے لی گئی یہ  احتیاط کافی قابل ذکر ہے کیونکہ پتھر ریت کے دانے کی طرح نیچے  گرتے ہیں ۔

 

مزار پر بنایا گیا ٹیومولس ایک ایسا مقام ہے جہاں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کو  دیکھا جا سکتا ۔ جو لوگ نمروت پہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ اپنی حیرت اور مختلف جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔  جرمن ماہر آثار قدیمہ فریڈریچ ڈورنر ، جو کوہ نمروت پر اپنے اہم آثار قدیمہ کے کام کے لیے مشہور ہیں اور ان کی کتاب  کوہ نمروت کی چوٹی پر دیوتاؤں کے تخت  میں وہ کہتے ہیں کہ وہ  نمروت پر اپنی پہلی چڑھائی کو کبھی نہیں بھولیں گے اور کہتے ہیں   انہوں نے مزید کہا انسان جتنی بھی تیاری کے ساتھ یہاں پہنچے وہ ان کھنڈارت کو دیکھتے ہوئے حیرت میں پڑ جاتا ہے۔

 

ایک قدرتی یادگار اور انسانی ہاتھوں کی شکل میں ایک تاریخی نمونے کے طور پر  کوہ نمروت  آج یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہے۔ کوما گینے تہذیب کے دیوتاوں کے مجسمے ، جو مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان ایک پل بنتے ہیں ، اس آتش فشاں پہاڑ  نمروت پر واقع ہیں۔

اناطولیائی جغرافیہ ، بے شمار تہذیبوں کا  گہوارہ  ہے۔ یہ ہمیں اپنے دیوہیکل مجسموں سے متوجہ کرتا ہے جو ماضی اور مستقبل کو دیکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی اور دنیا کے دروازے کھل گئے ہوں ، سورج طلوع آفتاب کے وقت ہر چیز کو سرخ رنگ دیتا ہے ، ہر چیز خاموشی میں پڑ جاتی ہے ، وقت رک جاتا ہے ۔ کسی کو یہ سوچ کر سکون ملتا ہے کہ وہ وقت کے آغاز کو دن کی طرح دیکھ رہا ہے اٹھتا ہے  اور محسوس کرتا ہے کہ جیسے  یہ کوئی معجزہ ہو۔

 

آج ہم نے  کوہ نمروت کے بارے میں بات کی  جہاں کوماگینے  سلطنت  اور اس کے بڑے مجسمے موجود ہیں۔


ٹیگز: #نمرود

متعللقہ خبریں