تجزیہ 84
عراقی علاقے سنجار میں یزیدیوں کی صورتحال اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں پر ایک جائزہ
دہشت گرد تنظیم داعش کے یزیدیوں کو ہدف بنانے والے سنجار حملے کے بعد ٹھیک7 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ تا ہم یہ علاقہ ابھی تک دہشت گردی کے زیر ِ اثر ہے۔ اس بار داعش کے بجائے پی کے کے دہشت گرد تنظیم اور اس کی ذیلی شاخیں سنجار کے بعض مقامات میں اپنے ڈھیرے جمائے ہوئے ہیں۔ علاقے میں دہشت گردی کے وجود کے باعث سنجار کی نشاط ِ نو نہ کی جاسکی ہے تو اپنے گھر بار کو ترک کرنے پر مجبور کیے جانے والے لاکھوں یزیدی اپنے آبائی وطن کو لوٹنے سے قاصر ہیں۔ گو کہ بغداد۔عربیل کے مابین سمجھوتہ طے پا چکا ہے تو بھی پی کے کے اور حشدی شعبی کی طرح کے مسلح ڈھانچے اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
آج سے ٹھیک سات برس پیشتر دہشت گرد تنظیم داعش نے عراق کے متعدد مقامات پر قبضہ جماتے ہوئے دہشت گردی کا بازار گرم کیا تھا تو سنجار کی یزیدی عوام اس درندہ صفت دہشت گرد تنظیم کا ہدف بنی تھی۔ اس دور میں علاقے میں متعین پشمرگے قوتیں بلا مزاحمت کے پیچھے ہٹ گئیں تو داعش نے سینکڑوں یزیدیوں کا قتل کیا اور بھاری تعداد میں اسیر بناتے ہوئے ان کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی۔ بعد ازاں عالمی اتحاد کی قیادت میں مذکورہ علاقے میں وسیع پیمانے کی فوجی کاروائی کرکے سنجار کو داعش سے پاک کر دیا تھا تو اس دوران شہر میں وسیع پیمانے کی تباہ کاریاں ہوئی تھیں اور عظیم سطح کا انتشاری ماحول پیدا ہوا تھا۔
یہ علاقہ اس تاریخ سے پشمرگے قوتوں سمیت پی کے کے دہشت گرد تنظیم کے بھی ڈھیرے جمانے والے ایک مقام کی حیثیت اختیار کر گیا۔ پشمرگوں کے انخلا کے ابتدائی ایام میں PKK کی مسلح شاخ ایچ پی جی نے وہاں پر اڈے قائم کیے اور بعض یزیدی نوجوانوں کو مسلح کرتے ہوئے وائے بی شین قوتوں کو تشکیل دیا۔ تنظیم نے علاقے میں عدم استحکام سے استفادہ کرتے ہوئے عراق۔ شام فرنٹ لائن پر سٹریٹیجک اہمیت کے حامل سنجار میں ایک خود مختار انتظامیہ ماڈل کو تشکیل دینے اور اس مقام کو بھی شام میں قائم کردہ کانٹون کی ماہیت میں بدلنے کی جستجو کی۔
تا ہم عربیل اور بغداد کی جانب سے حاکمیت کا دعوی کردہ ایک مقام ہونے والے سنجار کے لیے طاقت کی جدوجہد اور ترکی کی جانب سے گاہے بگاہے فضائی آپریشنز اور دباؤ کے باعث PKK/HPGقوتیں جزوی طور پر علاقے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئیں۔ دہشت گرد تنظیم نے اس پیش رفت کے بعد کاروائی کے ایک نئے طرز کو اپناتے ہوئے علاقے میں وائے بی شین قوتوں کو برقرار رکھتے ہوئے علاقے میں اپنے اثرِ رسوخ کو قائم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھا۔ اسوقت پی کے کے اور اس کی ذیلی تنظیمیں سنجار میں خانصر سے لیکر شامی سرحدی پٹی تک پھیلے ہوئے علاقے اور کوہِ سنجار میں اپنے وجود کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
دہشت گرد تنظیم PKK کے سنجار میں وجود کے برخلاف ترکی کے فوجی آپریشن اور سفارتی دباؤ عراق کی مرکزی حکومت اور عراقی کردی علاقائی انتظامیہ کے مابین سرانجام پانے والے سنجار مذاکرات میں تمام تر غیر قانونی ملیشیائی تنظیموں کو سنجار سے نکال باہر کرنے کا مقصد رکھنے والے سنجار معاہدےپر 9 اکتوبر 2020 کو دستخط کیے گئے تھے۔ تاہم اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں لازمی فوجی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ دوسری جانب PKK بغداد اور عربیل کے مابین طے پانے والے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے حشدی شعبی سے ایکا کرتے ہوئے علاقے میں خاصکر وائے بی شین کے پرچم تلے اپنے وجود کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
دہشت گرد تنظیم PKK کے علاقے میں وجود کے باعث سنجار کی نشاط نو ممکن نہیں بن سکی تو اسوقت اپنے گھر بار سے جبراً نکالے جانے والے لاکھوں یزیدی عوام اپنی سر زمین کو لوٹنے سے قاصر ہیں۔ خطے میں سیاسی ، اقتصادی اور سماجی استحکام کی از سر نو تاسیس کے لیے یزیدیوں کے با حفاظت ماحول میں زندگی بسر کر سکنے والے سنجار کی نشاط نو کی خاطر اسے تمام تر دہشت گرد عناصر سے پاک کیا جانا لازم وملزوم ہے۔