تجزیہ 77

ترک صدر کی امریکی صدر سے نیٹو کے اجلاس کے دوران برسلز میں ملاقات اور اس کے نتائج

1660711
تجزیہ 77

برسلز میں منعقدہ نیٹو کے سربراہی اجلاس کے دائرہ کر میں دلچسپی کے حامل معاملات  میں ترک۔ امریکہ تعلقات   پیش پیش تھے۔  اس موضوع پر سیتا سیکیورٹی تحقیقاتی امور کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔

ایردوان۔بائڈن ملاقات ماضی کی  ملاقاتوں کی طرح ایک کلیدی ملاقات ثابت ہوئی ہے اور  یہ بائڈن انتظامیہ  اور ترکی کے مابین آئندہ کے چند سالوں کے سلسلے کو متاثر کرنے   کے حوالے سے اہم تھی۔ ترکی نے دو طرفہ تعلقات میں  تین اصولوں پر مبنی ضمنی منصوبہ پیش کیا۔  ان میں سے پہلا  اصول دو طرفہ تعلقات    کی تشریح کے لیے کسی نظریاتی فریم کی از سر نو تشکیل تھا۔  سرد جنگ کے بعد دونوں فریقین نے باہمی تعلقات کی تشریح کو وضع کرنے کی خاطر کئی ایک نظریوں کو بالائے طاق رکھا ۔ سڑیٹیجک شراکت داری اور ماڈل شراکت داری کی طرح  در اصل دو طرفہ تعلقات کے اعتبار سے   کئی فریموں پر مشتمل نظریات کو ترجیح دی گئی کہ جن میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر نہ کیا جا سکا گیا ہے۔ ان میں سے بعض  کھوکھلے ہی رہے   یا پھر قلیل المدت تعلقات کو روخ دینے والے نفسیاتی ماحول کو پیدا کرنے   سے ہٹ کر آگے نہ جا سکے۔  اس بنا پر   ترکی  نے اپنی خود مختاری کا احترام  کرنے والے کسی متوازن تعلق کا مطالبہ پیش کیا۔

دوسرااصول دو طرفہ تعلقات  کا حقائق سے ہم آہنگ ہونے کا معاملہ تھا۔  ترکی نے  میدانی حقائق سے کوسوں دور   باہمی تعلقات کے  بے فائدہ ہونے کی ایک  بار پھر یاد دہانی کرائی۔ واشنگٹن انتظامیہ  بھی انقرہ کے حقائق  سے دور ترک۔ امریکی تعلقات  کومزید جاری نہ رکھنے  سے  آگاہ ہے۔ بائڈن کے بیانات نے ترکی کے ساتھ در پیش مسائل کے حل    کے خواہاں ہونے کا  مظاہرہ کیا ہے۔

ترکی۔ امریکہ تعلقات  کا کلیدی ترین  عنصر حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے والے معاملات میں  رونما ہونے والے   تضادات ہیں۔ مذاکرات میں پی وائے ڈی۔وائے پی جی، فیتو، ایس۔400 جیسے معاملات دوبارہ سے زیر غور آئے۔ دوسری جانب امریکہ   کی کاتسا  دائرہ عمل میں عائد کردہ پابندیوں کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے  انہیں نظرِ انداز کرنے  کے ممکن نہ ہونے کو زیرِ لب لایا گیا۔ دونوں سربراہان نے اس معاملے میں متعلقہ وزارتوں کے درمیان رابطہ رہنے کا اظہار کیا۔ لہذا    اس حوالے سے آئندہ کے ایام میں بعض مسائل میں تحفیف  آنے   کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔

مذاکرات میں  زور دیا گیا ایک دوسرا معاملہ  ترک۔ امریکی تعلقات  کو  قابلِ دوام بنا نا تھا۔جیسا کہ  مذاکرات کے بعد  جاری کردہ بیانات   سے بھی  یہ عیاں ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اس تعلق کو مزید قابل ِ  برداشت  سطح تک برقرار رکھنے کے آزور مند ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اصولوں  پر ترکی اور  امریکہ کوئی نمایاں مصالحت قائم  کر سکے تو اس صورت میں دیگر مسائل پر  زیادہ  ذی فہم بات چیت کا ماحول بھی جنم لے سکتا ہے۔  ترکی کی  بڑھتی ہوئی طاقت اورمتحرک خارجہ پالیسیوں کو نظرِ انداز کرنے والی خارجہ پالیسی حکمت عملی   ناکامی کا منہ دیکھنے پر مجبور ہو گی۔اس  بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ  امریکہ اس حقیقت  کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اس  اعتبار سے نیٹو  سمٹ  ترک۔ امریکی تعلقات میں ایک  نئے دور  کا سنگ بنیاد ڈالنے   کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوئی ہے۔



متعللقہ خبریں