اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب16

"باجیان روم" دنیا کی پہلی خواتین کی تنظیم

1658550
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب16

یورپ اور امریکہ میں خواتین صنعتی انقلاب سے قبل  امور خانہ داری اور کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔صنعتی انقلاب کے بعد یعنی اٹھارویں صدی میں خواتین نے افرادی قوت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ اس دور میں خواتین مردوں کے مقابلے میں آدھی تنخواہوں پر کام کر رہی تھیں۔انیسویں صدی میں خواتین کو معلمات کا درجہ بھی ملا لیکن اناطولیہ میں خواتین کی تنظیمیں تیرہویں صدی میں مردوں کے شانہ بشانہ رہیں تھیں۔آج ہم آپ کو دنیا  کی پہلی خواتین کی تنظیم کے بارے میں بتائیں گے۔

 تیرہویں صدی میں اناطولیہ میں قائم خواتین کی پہلی تنظیم کا نام باجیانِ روم کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ لفظ"باجی" ترکی زبان میں بہن کے معنوں میں آتا ہے۔جبکہ اس دورمیں اناطولیہ کو روم کہا جاتا تھا۔اناطولیہ میں اس قسم کی تنظیم کا اس دور میں قائم کیا جانا مغربی محققین کے لیے اچنبھے کی بات ہوگی  جنہیں یہ بھی حیرت ہوگی کہ اس دور میں بازاروں میں خرید و فروخت، اور ملازمین ی کثیر تعداد خواتین پر مشتمل ہوتی تھی کیونکہ اس دور  کے یورپ میں خواتین صرف گھر داری سے ہی وابستہ تھیں اور جو ان سے انحراف کرتی تھیں انہیں سزا دی جاتی تھی۔مغربی محققین کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ  اناطولیہ کی یہ خواتین اپنے اتحاد کے لیے ایک تنظیم کا قیام بھی عمل میں لا سکتی ہیں۔انہوں نے اس بارے میں کسی قسم کی تحقیق بھی نہیں کی  کیونکہ انہیں اس بارے میں شبہ  تھا۔ باجیان روم کے بارے میں دور عثمانی کے محقق عاشق پاشازادہ نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے جس میں ان کے سماجی و ثقافتی پہلووں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
 باجیان روم سے متعلق زیادہ معلومات  تو  دستیاب نہیں ہیں لیکن آحیلیک  نامی تنظیم کے بارے میں کچھ دلائل ملتے ہیں ۔احیلیک سلجوکی دور میں سرکاری نگرانی میں ایک تنظیم کا نام تھا۔اس قسم کی تنظیمیں چھوٹے تاجروں کے اتحاد کی ترجمانی کرتی تھیں حتی انہیں بہتیرن انسانی اقدار کا بھی مجموعہ بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔اس تنظیم میں خواتین کا بھی سماجی و ثقافتی کردار اہمیت کا حامل تھا۔ اس تنظیم   کے قیام کا سہرا آحی ایوران اور باجیان روم کے قیام  کی ذمے داری ان کی اہلیہ فاطمہ  باجی کی تھی۔ آحی ایوران  نے  ترکمین خانہ بدوشوں کی آباد کاری کا ذمے لیا جبکہ  فاطمہ باجی نے ترکمین خواتین کے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔

اناطولیہ کی خواتین فاضل روئی  کو مفید بنانے کے لیے قیصری میں چرم  اور پیتل سازوں کے بازار میں تعلیم لیتے ہوئے مختلف پیداواری شعبوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا ۔انہوں نے بعد ازاں قالین سازی،بنائی،کڑھائی اور ریشم و کپاس سازی میں اپنی مہارت دکھانا شروع کی ۔باجیان روم   بلا کسی تفریق و عمر خواتین کو پیشہ وارانہ تربیت بھی دیتی تھیں۔ دنیا کی پہلی خواتین کی تنظیم کا دیگر مقصد یتیم اور بے سہارا خواتین کو تحفظ فراہم کرنے،ان کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگہداشت میں مدد کرنے،مالی  وسائل کی کمیابی کے حامل خواتین کی مدد کرنے میں بھی یہ اتحاد اپنا کردار ادا کرتا تھا۔
 آحیلیک اور اس کی ذیلی تنظیم باجیان روم میں زندگی  کو آسان بنانے کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔اس تنظیم کا کام مرد وخواتین میں بلا تفریق  پیشہ وارانہ تربیت فراہم دینے اور دینی و اخلاقی لحاظ  سے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ زمانہ جنگ میں ان کے کردار کو نمایاں کرنے کا بھی تھا۔اناطولیہ میں سلجوکی دور کے خلاف منگولوں کے حملوں کے دوران باجیان روم  نے قیصری، کر شہر اور قونیہ جیسے شہروں میں آحی تنظیم کے ہمراہ مل کر مردوں کے شانہ بشانہ مزاحمت میں حصہ لیا۔

 

اناطولیہ میں مردوں کے ہمراہ مساوی  حالات میں اقتصادی ومعاشی لحاظ سےخود کفیل بننے اور بوقت ضرورت جنگ میں حصہ لینے والی بہادر خواتین کو ایمیزون کی خواتین سے بھی محققین نے تشبیہہ دی ہے۔لیکن سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ  ایمیزون  خواتین کا  باجیان روم سے موازنہ محققین نے کیوں کر کیا ؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ ایمیزون خواتین کا وجود تھا بھی یا نہیں؟
بعض تحاریر میں کہاجاتا ہے کہ  سامسون کے قصبے تھرما میں ان خواتین کا وجود  موجود بتایا گیا ہے۔ تاریخ دان  ہیریدوت  ان خواتین کو اسکیت کہتا تھا جبکہ اسٹرابون اپنی کتابوں میں انہیں ایمیزون کی خواتین کہا کرتا تھا۔ہومیروس نے ان خواتین کو مردو ں کے مساوی قرار دیا اور بتایا کہ انہوں نے جنگ ٹروئے میں بھی حصہ لیا تھا۔قدیم دور  کے نامور مفکر پلاٹون نے اپنی کتاب ریاست میں بحیرہ اسود کے علاقے میں مردوں کی طرح گھڑ سواری  اور  تیز بازی سمیت دیگر اسلحے کا استعمال کرنے والی خواتین  کا ذکر کیا ہے لیکن میتھولوجی کی وجہ سے ان باتوں  پر کچھ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔اب یہ حقیقت ہے یا محض خیالی وجود اس بارے میں تو ہمیں معلوم نہیں مگر دو ہزار سال قبل مسیح ایمیزون کا قبیلہ اپنا تعلق اسکیت،حطیطی اور یونانیوں سے منسلک کرتا ہے۔ دور حاضر مین ماہر آثارقدیمہ نے  جنگجو ایمیزون قبیلے  کی خواتین کا ثبوت دیا ہے جن میں سے ایک سن انیس سو چورنواے میں امریکی ماہر ڈاکٹر جی ڈی کمبل  کی تحقیق  ہمارے سامنے آتی ہے جنہوں نے  قازقستان میں بعض کھدائیوں کے دوران اس افسانے کی  گہرائی کو جاننے میں مدد ملی۔انہوں نے کھدائی کے دوران تیس تا چالیس سال کی عمر کے درمیان خواتین کی باقیات بازیافت کیں۔ان  باقیات میں انہیں نیزے،تیر اور تلواریں بھی ملیں۔امریکی ماہر نے ان باقیات کا ذکر اپنی کتاب ایمیزون کی خواتین میں کیا ہے۔ سن دو ہزار انیس میں روسی  انسٹیوٹ برائے آثار قدیمہ کے  ماہرین  نے مغربی روس میں اسکیت قوم  کی خواتین کی باقیات تلاش کیں اور ایمیزون خواتین کے وجود کا حوالہ دیا ۔ اس طرح سے اس افسانے کو حقیقت کا روپ ملا البتہ ضلع سامسون کے قصبے تھرما  کو ان کا آاءی وطن قرار دینا فی الحال ابھی باقی ہے۔

 

اناطولیہ کے سلجوکی دور میں قائم تنظیم باجیان روم اس دور میں کو خواتین کی سماجی و اقتصادی زندگی میں شامل کرنے کا اور مردوں کے مساوی اہمیت دینے کا وسیلہ بنی۔ مغربی محققین کی اکثریت نے  اس قسم کی تنظیم کو تسلیم نہیں کیا جو کہ تیرہویں صدی میں اناطولیہ جیسے علاقے میں قائم ہوئیاور اسے دنیا کی پہلی خواتین کی تنظیم کا  اعزاز ملا ۔



متعللقہ خبریں