تجزئیہ ۔ 72

تجزئیہ ۔ 72

1639379
تجزئیہ ۔ 72

قارئینِ کرام SETA خارجہ پالیسی  کے محقق جان آجون کا مشرق وسطیٰ کے بارے میں تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

 

دورِ حاضر میں امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے مشرق وسطیٰ  پر سنجیدہ اثرات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ٹرمپ کی حمایت سے محروم ہونے کے بعد ولیعہد شہزادے اپنی سیاسی پوزیشنوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کروا دیئے ہیں اور اسے دوبارہ اسرائیل کے سخت ردعمل اور تحریکی اقدامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم جہاں تک ترکی کی بات ہے تو ترکی اس نئے تناسب میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ کی سطح پر لانے کی کوششوں میں ہے۔

 

مشرق وسطی دنیا کے سب سے زیادہ ڈنامک علاقوں میں سرفہرست حیثیت رکھتا ہے۔ اس جغرافیے کی شکل پذیری  جھڑپوں اور طاقت کی کھینچا تانی پر منحصر ہونے کی وجہ سے  علاقے میں استحکام کی بجائے انتشار اور بدامنی پر بات کرنا زیادہ ممکن ہے۔ خاص طور پر یہاں ہم جس انتشار پر بات کر رہے ہیں وہ خارجہ مداخلت کا پیدا کردہ   اور کنٹرول میں رکھا گیا انتشار ہے۔اگرچہ ترکی صرف مشرق وسطیٰ کا ہی ملک نہیں ہے لیکن پھر بھی علاقائی حالات سے یقیناً متاثر ہو رہا ہے۔اس حوالے سے امریکہ میں خاص طور پر اقتدار کی تبدیلی کے بعد سے علاقائی سیاست میں سنجیدہ سطح پر حرکت اور نظر ثانی  کی کوششوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ اس سے زیادہ موئثر اثرات زیرِ بحث ہوں کیونکہ بائڈن کے زیرِ انتظام امریکہ نے ایک طرف تو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا دوبارہ آغاز کروا دیا اور ملک پر سے دباو میں کمی کر دی ہے تو دوسری طرف سعودی اور متحدہ عرب امارات کے ولیعہد شہزادوں کے لئے بے لاگ تعاون میں کمی کر دی ہے۔  بائڈن کی اس پالیسی نے علاقے کے توازنوں کو شدید  دہچکا لگایا ہے۔

 

اسرائیل اور خلیجی ممالک کو اس وقت شدید اندیشوں کا سامنا ہے۔ تاہم موجودہ حالات مختلف جواب دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔اسرائیل اختیار کردہ اقدامات کے ساتھ امریکہ۔ ایران تعلقات میں نرمی کے راستے میں رکاوٹ بننے کا خواہش مند ہے۔اسرائیل نہ صرف اپنی زمین سےبراہ راست شکل میں بلکہ شام جیسے ممالک میں اپنی موجودگی سے بلواسطہ شکل میں بھی ایران کو نشانہ بنا رہاہے۔ خلیج اور بحیرہ احمر میں بھی دونوں ممالک دو طرفہ شکل میں ایک دوسرے کے بحری جہازوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ تاہم اس وقت تک ایران نے اسرائیل کے اصل مقصد  یعنی کشیدگی اور تناو میں اضافے  سے پہلو بچانے کو ترجیح دی ہے۔

 

جہاں تک خلیجی ممالک  کا تعلق ہے تو انہوں نے، یہ دیکھنے کے بعدکہ  اب وہ  ٹرمپ دور کی پیش کردہ حفاظتی شیلڈ پر اعتبار نہیں کر سکیں گے، اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی شروع کر دی ہے۔لہٰذا خلیجی ممالک نے پہلے قطر کا محاصرہ ختم کر کے  حالات کو معمول پر لانا شروع کیا  اس کے بعد ترکی کے بارے میں بھی ان کے نقطہ نظر میں سنجیدہ سطح پر نرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اگرچہ ابھی ٹھوس سیاست میں نہ بھی تبدیل ہوئے ہوں تو اشارے واضح شکل میں سب کے سامنے ہیں۔

 

علاقے کے اہم ممالک میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے ترکی  اس تبدیلی اور نظر ثانی  کی کوششوں سے لا تعلق نہیں ہے۔ٹرمپ دور میں ترکی کے مقابل محاذ بنانے والے ممالک کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کے لئے مختلف دو طرفہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ایک طرف صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی عرب کے شاہ سلیمان بن عبدالعزیز  کے ساتھ مختلف ٹیلی فونک ملاقاتیں کیں  ہے تو دوسری طرف اصل پیش رفتیں مصر کے ساتھ جاری ہیں۔ ترکی سے ایک وفد نے قاہرہ میں اہم مذاکرات کئے اور دونوں ممالک دو طرفہ نقصان کی دلدل سے نکل کر دو طرفہ مفادات پر توجہ مرکوز کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یقیناً لیبیا میں سیاسی حل مرحلہ بھی تعلقات پر مثبت اثرات ڈال رہا ہے۔

 

اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے جو چیز آشکارہ ہے وہ یہ کہ اس وقت ہم ایک ایسے نئے دور میں ہیں کہ جو ممالک کی سیاسی حیثیت پر اثر انداز ہو گا۔تمام ممالک کسی نہ کسی صورت میں اپنی موجود حالت اور تعلقات پر تنقیدی نگاہ ڈال رہے ہیں۔ زمانہ قریب میں پراکسی جنگوں اور جھڑپوں میں کچھ مدت کے لئے  وقفہ ڈالا جا سکتا ہے۔تاہم اس ضمن میں اسرائیل اور ایران کے اٹھائے گئے  اقدامات اہم ہوں گے۔دونوں ممالک میں کوئی ممکنہ جنگ پورے علاقے کو شدت سے اپنی لپیٹ میں لے کر پھیلتی چلی جائے گی۔ ترکی کے حوالے سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ عرا ق اور شام میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری رہیں گے۔

 


ٹیگز: #تجزئیہ

متعللقہ خبریں