اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب11

اناطولیہ اور علم فلسفی کی تاریخ

1637962
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب11

ایٹم  کسی بھی شہ کا ناقابل تقسیم حصہ ہوتاہے لیکن کیا آ پ کومعلوم ہے کہ اس کی دریافت کس دور میں  کی گئی؟  ایٹم کی دریافت کے بارے میں  ابتدائی ادوارکے مشہور فلسفی تھے  جن کا آغاز تھالیس  سے ہوتا ہے  جو کہ  سات مشہور زمانہ فلسفیوں میں شمار ہوتا ہے۔ تھالیس کا تعلق میلیت سے تھا جس دور حاضر میں آئیدن کہا جاتا ہے۔تھالیس سے قبل ایونی قوم کا عقیدہ تھا کہ ہر شہ دیوتاوں کی طرف سے منظم کی گئی ہے  جسکے بر عکس تھالیس کا ماننا تھا کہ  انسان کو ان قدرتی واقعات کے لیے دیوتاوں کا نہیں بلکہ مشاہدےکا سہارا لینا چاہیئے۔ اس نے ہر شے  کے ارتقائی وجود کی بنیاد جاننے کا بیڑہ اٹھایا،اس نے میتھولوجی  حقائق کے  بجائے پانی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے فطری اثرات جاننے کی کوشش کی  اور  اپنی عقل و فکر سے اس نے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کے اس نظریے کا کوئی تحریری ثبوت تو موجود نہیں ہے البتہ اس بارے میں ایک مستند نام ارسطو کا ہے جس کا کہنا تھا کہ تھالیس کی رو سے ہر شہ کا بنیادی عنصر پانی ہے جس سے  ہر شہ کا وجود تخلیق ہوا ہے۔ہم آج بھی جانتے ہیں کہ اس کا دعوی صحیح  ثابت نہ ہوسکا لیکن تھالیس کے فلسفلے  نے کم از کم اس تجسس کو   تقویت ضرور  دی اور ایٹم کا نظریہ ہمارے سامنے آیا۔

تھالیس کے بعد کے فلسفیوں  اناکسی ماندروس اور اناکسی مینیس  بھی میلیت کے رہنے والے تھے جنہوں نے فلسفے کی درس گاہ  کی بنیاد رکھی۔ تاریخ کی پہلی فلسفی درس گاہ کا قیام میلیت میں ہوا جسے قدیم یونانی فلسفے کے پہلے مرکز کا درجہ حاصل تھا۔تھالیس،اناکسی ماندروس اور اناکسی مینیس ایونیا درس گاہ کے نام سے مشہور  میلیت درس گاہ  کی نظریاتی و افکاری روایت کے  معمار سمجھے جاتے ہیں۔

اگر آپ کو فلسفلے میں دلچسپی نہیں   ہے پھر بھی آپ تھالیس کو علم ریاضی میں اس نام سے منسوب ایک تعریف سے جان سکتے ہیں۔پانی کے مشاہدے کے بعد تھالیس اس نتیجے  پرپہنچا کہ  پانی مردہ نہیں بلکہ سرچشمہ حیات ہے جو کہ ہر شکل میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ بعد ازاں وہ ماحولی  تغیر اور آسمان کا مشاہدہ کرتا ہے ،ستاروں سے  راستو  ں  کا تعین  اور مقناطیس کی قوت ثقل کو جاننے  کی کوشش کرتا ہے۔ تھالیس فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر ریاضی ،ماہر فلکیات اور پلا آبی انجینئر بھی تھا۔
 تھالیس کے بعد میلیت اسکول کا دوسرا فلسفی اناکسی ماندروس تھا  جس کی سوانح حیات کے بارے میں زیادہ تو  علم نہیں مگر اس کی تحاریر دنیا جانتی ہے کیونکہ اناکسی ماندروس   نےتھالیس کے  برعکس اپنے مشاہدات  تحریری شکل میں چھوڑے ہیں۔ اناکسی ماندروس  ایک فطری  فلسفی اور محقق تھا جس نے اپنے دلائل کو  مشاہدات کی روشنی میں پیش کیا۔اس نےبھی پانی کو سر چشمہ حیات  قبول  کرتےہوئے دعوی کیا کہ  ایک دور میں تمام پہاڑ اور زمین پانی کے نیچے تھی   جو کہ پانی  کی سطح کم ہونے کے ساتھ ساتھ منظر  عام پر نمودار ہونا شرو ع ہو گئے  اور زندگی کا سلسلہ اس کے بعد بھی پانی کی بدولت جاری رہا۔اناکسی ماندروس کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ  وہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کا نقشہ کھینچنے کی ابتدا کی تھی  اور یہ  خیال ظاہر کیا کہ دنیا  ایک سیلنڈر کی شکل میں ہے جو کہ کائنات کا مرکز بھی ہے۔
میلیت اسکول کا آخری  بانی فلسفی اناکسی مینیس تھا  جس کا تعلق بھی  میلیت سے تھا۔اس کا دعوی تھا کہ  کائنات ماحولی تغیر کے نتیجےمیں وجود میں آئی ہے۔مادے کی اصطلاح بھی اس نے ہمارے سامنے پیش کی   ،بعد ازاں ،آگ ،پانی،ہوا اور مٹی کی اصطلاح بھی پہلی بار اناکسی مینیس  کی وجہ سے دنیا کو جاننے کے لیے ملی۔

میلیت کے قریب  ایک شہر ایفیس تھا جہاں ہیراکلیتوس کی پیدائش  ہوئی۔ یہ ایونیا کا فلسفی تھا۔ اسے ابتدائی دور میں  بعض نقاد وں نےایک تاریک ہیراکلیتوس بھی کہا ۔ اس کا ماننا تھا کہ  کائنات مسلسل تغیر سے گزرتی ہے۔
 میلیت  میں اور بھی کئی فلسفی گزرے ہیں۔ایونیا اسکول کے بعد میلیت  میں لوکیپوس اور دیموکریتوس  کا بھی کافی چرچا رہا۔انہوں نے بھی پانی،آگ،ہوا اور  مٹی کی اصطلاح قبول کی اورخلیات کو ایٹاموس کا نام دیا۔ اس طرح سے لوکیپوس اور دیموکریتوس نے ایٹم کی اصطلاح دنیا سے متعارف کروائی۔ ان کے مطابق، کائنات میں ہر شہ ایٹم سے وجود میں آئی ہے۔ان کی تعداد   لا محدود ہے۔ اس ڈھائی ہزار سالہ سائنسی  تحقیق نے  بنی نوع انسان کو فزکس کے بنیادی اصول وضع کرنے میں مدد کی ۔
 اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے وسط میں  بتایا گیا کہ ایٹم  معمولی ذرات کا نام نہیں بلکہ اس کی ساخت چھ مختلف ذرات پرمشتمل ہے۔اس کے نتیجے میں الیکٹرون او رپروٹونز اور نیوٹرونز کی دریافت ہوئی۔ اب یہ بحث شروع ہوئی  کہ کیا  اس ایٹم کے چھ ذرات کو بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے ؟ لہذا   ماہرین نے اس کی تحقیق شروع کی اور کچھ ہی عرصے بعد  اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پروٹونز اور نیوٹرونز کی بھی تقسیم کی جا سکتی ہے۔دور حاضر میں  ہم ایٹم کو کوارک اور لیپٹونز کہتے ہیں جن کی تقسیم یا غیر تقیسم کےبارے میں تحقیق ہو رہی ہے۔

سائنس کی تحقیق انسانی ذہن میں چھ سو سال  قبل مسیح سے بھی پہلے اناطولیہ میں وارد ہوئی۔ اسی سر زمین نے تاریخ کا پہلا فلسفی تھالیس پیداکیا جس نےتوہمات کے چنگل سے نکلتے ہوئے  فطری حادثات کا مشاہد ہ کیا اور اپنے دعوے پیش کیے ۔ اس کے ان دعووں کے نتیجے میں توہماتی  اثرات کا خاتمہ شروع ہوا اور انسان نے  کائنات کی تخلیق اور اس کے اسرار و رموز جاننے کی ٹھانی ۔
مغربی اناطولیہ میں واقع میلیت کی درسگاہ میں فطری تغیر کا مشاہدہ کرنےمی فلسفی مصروف رہے  ،میلیت جو کہ اب آئیدن کہلاتا ہے  اسے سائنسی مرکز اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مادے کی تخلیق کیسے ہوئی  اور کیا اسے چھوٹے ذرات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانے لگا۔یہ سلسلہ تھالیس سے شروع  ہو کر لیوکیپوس تک جاری رہا جس کے بعداسی روش پر آنے والے فلسفی بھی کار بند رہے۔ انہی فلسفیوں کی تحقیق کی روشنی میں  جدید دنیا کے گلیلیو ،نیوٹن،آئن اشٹائن اور دیگر سائنس دانوں کو اپنے مشاہدات اور تجزیات میں رہنمائی ملی ۔ اناطولیہ کےان  ماہرین نے بنی نوع انسان  کی سائنسی بصیرت اور  قابلیتوں کوپروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آج ہم نے تاریخ ک ےپہلی علم فلسفہ کی درس گاہ میلیت اور  اناطولیہ کے بانی ماہرین فلسفہ کا ذکر کیا ۔



متعللقہ خبریں