تجزیہ 71

مشرق وسطی کی صورت حال میں ترک مصر تعلقات کا کردار

1635986
تجزیہ 71

حالیہ ایام میں مشرق وسطی  کی متعدد ریاستیں  مسائل میں گھرے ممالک سے تعلقات بحال کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔
 سیٹا سلامتی و تحقیقاتی ڈاریکٹر  اور مصنف پروفیسر ڈاکتر مراد یشیل تاش  نے اس حوالے سے اپنے  جائزات پیش کیے ہیں۔

 

 یہ صورت حال سب سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ  کے دور میں  اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان تعلقات کے آغاز سے شروع ہوئی تھی۔ امریکہ میں بائڈن کے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطی  کے کئی ممالک میں متعلقات کی بحالی کا دور  شروع ہوا۔ گزشتہ ہفتوں میں سعودی عرب اور ایران کے مابین گرم جوشی اور خیر سگالی پر مبنی پیغامات خطے کے دو حریف ممالک  میں  تعلقات کی بحالی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ ترکی  بھی اس صورت حال میں  شامل رہا  ۔ترکی ۔اسرائیل ترکی ۔مصر اور ترکی ۔سعودی عرب کے درمیان قربت  ممکنہ طور سے مشرق وسطی کی سیاسی بساط پر ایک نئے دور کا آغاز کر سکتی ہے۔ حال ہی میں ترکی نے مصر سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی ہے  پہلے خفیہ ایجنسیوں  اور بعد ازاں  امور خارجہ کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک اعلی سطحی ترک وفد کی قاہرہ روانگی کی صورت  میں موجو دہے۔

ترکی  کے مصر سے تعلقات کی بحالی پر مبنی کوششوں سے ایک  علاقے میں ایک مختلف توازن قائم ہو سکتا ہے۔امریکہ کی طرف سے  یمن کے لیے سعودی امداد   کو روکنے  اور ایران سے جوہری مذاکرات کے دوبار آغاز کے نتیجے میں مشرق وسطی میں طاقت کا توازن حرکت میں آ چکا ہے۔ وائٹ ہاوس کے مشرق و سطی کے نمائندے میک گرک  نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،مصر اور اردن کا دورہ کرتے ہوئے ایران کے جوہری مذاکرات پر واپسی کے لیے اتحادی ممالک کے خدشات دور کرنے میں مدد کی ۔ امریکہ کی پہلی ترجیح ایران کو جوہری مذاکراتی میز پر لانے اور تنصیبات کے معائنہ کےلیے قائل کرنا ہے۔ دریں اثنا، روس اور چین جیسی عالمی طاقتوں کے بھی مشرق وسطی میں  قدم بڑھانے سے امریکہ کو خطے میں مقابلے بازی کے رحجان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہےکہ تمام عالمی طاقتیں   علاقائی مسائل کے حل میں کوشاں ہیں جہاں ترک۔مصر قربت کی کوششیں بھی  اس توازن کا حصہ بنتی نظر آ رہی ہیں۔
 

مشرقی بحیرہ روم میں اختیارات کی تقسیم اور لیبیا کے حوالے سے انقرہ۔قاہرہ تعلقات کی بحالی   ضروری  نظر آتی ہے۔ لیبیا کی سیاسی  صورت حال کے آغاز کے بعد مصر اور ترکی  کےلیےلیبیا کا بحران  ایک مشترکہ  قابل تصفیہ مسئلہ بن سکتا ہے۔دونوں ملک لیبیا  کے حوالے سے مشترکہ پیش قدمی  کی اسٹریٹیجک اہمیت سے واقف ہیں۔ دونوں ملک اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے وسائل سے متعلق مقابلے بازی  بے کار ہوگی اور مصر  پر بھی یہ اطلاق ہو گیا ہے کہ یونان سے معاہدہ کرنے  سے اس کی ترجیحات اور مفادات کو کوئی فائدہ  نہیں ملے گا لہذا ترکی سے  مشرقی بحیرہ روم  کے وسائل پر معاہدہ کرنا اس کے حق میں بہتر ہوگا۔ دونوں ملک تعلقات کی بحالی میں مثبت ایجنڈے پر اس وقت کام کر رہے ہیں۔
 دونوں ملکوں کے  درمیان اخوان المسلمین کا  معاملہ  اس وقت زیر غور نہیں ہے جس کے مقابلےمیں فی الوقت جیو پولیٹیکل موضوعات دونوں ملکوں کی میز پر ترجیح کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مصر۔ ترکی تعلقات  کی بحالی  سے لیبیا سمیت دیگر علاقائی کشیدگی کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی ۔ اگر  ان تعلقات میں بہتری آئی تو  اس کا اثر خطے  میں چڑھتےہوئے پارے کو کم کرنے میں معاون ہوگا۔

 


ٹیگز: #تجزیہ

متعللقہ خبریں