تجزیہ 69

ترکی کے عراق میں فوجی اڈوں کے وجود اور باشیقہ فوجی اڈے پر حملے کے ممکنہ اسباب پر ایک جائزہ

1627140
تجزیہ 69

عراق میں بیک وقت امریکہ کے عربیل میں فوجی اڈے  اور ترکی کے موصل میں باشیقہ فوجی اڈے پر حملوں نے ایک بار پھر نظروں کو ایک بار پھر اس علاقے کی جانب موڑ دیا  ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔۔

ترکی  کا موصل سے 25 کلو میٹر شمال میں واقع ایک بڑا فوجی اڈہ کیونکر  ہدف بنا، حملے کے پیچھے کون  کارفرما تھے یہ اہم  سطح  کےسوالات ہیں۔ خاصکر حالیہ ایام میں سنجار سمیت ترکی میں دہشتگردوں کے خلاف جنگ ایک بلند سطح  پر جاری ہونے کے وقت  ان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ترکی کے شمالی عراق میں چھوٹے بڑے بھاری تعداد میں فوجی اڈے اور چیک پوسٹس موجود ہیں تو باشیقہ  اپنے رقبے اور فوجی وجود کے اعتبار سے ان  سب میں نمایاں ترین ہے۔  یہ فوجی اڈہ  نہ صرف دہشت گرد تنظیم PKK کے خلاف جنگ  کے لحاظ سے ایک انتہائی اہمیت کا مالک ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ موصل  کو دہشت گرد تنظیم داعش سے پاک کیے جانے اور علاقے خطے میں لازمی استحکام و توازن کےقیام میں خدمات ا دا کر رہا ہے۔ اس مقام نے ایک طویل مدت تک حشدی وطنی قوتوں کی بھی میزبانی کی اور ترک فوجیوں  نے ان قوتوں کو داعش کے خلاف جنگی تربیت فراہم کی۔  یہ صورتحال علاقے میں مذہب پرست  بنیادوں  پر سیاست کرنے والے بعض عناصر  اور خاصکر حشدی شابی  کی چھت تلے  انتہا پسند گروہوں  کو بے چین  کر رہی تھی۔ خاصکر وزیر اعظم مالکی کے دور میں ایران سے قربت رکھنے والے عناصر کے دباؤ کے ساتھ ترکی کی جانب  سے اس فوجی اڈے کو ترک کرنے کے   لیے دھمکیاں منظر عام پر آنے لگیں، تا ہم ترکی  نے اس مؤقف کی پرواہ کیے بغیر بغداد  کے منتظمین کے ساتھ مسئلے کو مثبت طریقے سے  حل کر سکنے  کے لیے مذاکرات سر انجام دیے تھے۔

حال ہی میں باشیقہ فوجی اڈے پر میزائل حملے نے ذہنوں  میں دوبارہ سے حشدی شابی عناصر کو لایا ہے۔ بالخصوص گزشتہ دنوں ترکی کے سنجار علاقے میں دہشت گرد تنظیم PKK  کو اس علاقے سے نکال باہر کرنے کے زیر مقصد ایک فوجی کاروائی کرنے کے اشارے سامنے  آنے کے بعدیہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔ حشدی شابی سے منسلک قوتوں  کا سنجار میں ہر گزرتے دن کہیں زیادہ قدم جمانے اور عربیل ۔ بغداد معاہدے  کے برخلاف اس مقام پر PKK کے مقامی عناصر سے تعاون کرنے کو بالائے طاق رکھنے سے ایران سے قربت رکھنے والے عناصر کے ترکی مخالف حرکات و سکنات میں مصروف ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ۔ در حقیقت سنجار ایران کے  لیے سٹریٹیجک اہمیت کا مالک  ہے اور یہ علاقہ شام تک رسائی کے لیے ایک لاجسٹک محور کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کو کھونا ایران  کے مفاد میں نہیں ہوگا ، تا ہم  اس پوزیشن کو PKK کےساتھ تعاون کے ذریعے  تقویت دینے کی کوشش ایک فاش غلطی کے  مترادف ہے۔

ترکی عراق اور شام کے محور پر PKK دہشت گرد تنظیم کی فیلڈ حاکمیت  کے  حامل تمام تر علاقوں کی صفائی کرنے پر پُر عزم ہے اور اس حوالے سے لازمی اقدامات اٹھانے  میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتا، ایران سے قربت رکھنے والے گروہوں کی شام میں خاصکر عفرین علاقے میں اس سے ملتی جلتی کوششیں سامنےآئی تھیں لیکن ان کا انجام برا ہوا تھا۔ ترک فوج نے  شیعہ عسکریت پسندوں کو PKK کے دہشت گردوں کے ہمراہ ناکارہ بنا دیا تھا ۔اب ایران سے قربت رکھنے والے عناصر  شمالی عراق میں ترکی  کو چیلنج کر رہے ہیں، لیکن  یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کا انجام بھی دیگر مشابہ حرکات کرنے والوں سے مختلف نہیں ہو گا۔



متعللقہ خبریں