اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب06

"پیسے کی ایجاد اور جدید دنیا"

1615904
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب06

پیسہ کسی کے لیے ایک  عیاشی تو کسی کے لیے ایک وسیلہ بنتا ہے۔ پیسے کے بل بوتے پر استوار تعلقات اس کے اطوار کی بھی عکاسی کرتا ہے۔" پیسے سے خوشی نہیں ملتی" ترکوں کا مشہور محاورہ ہے۔جنگ کے لیے تین اہم چیزیں کیا ہیں؟ نپولیئن کے بقول پیسہ،پیسہ اور صرف پیسہ ۔آج کی دنیا میں پیسے کی اہمیت و طاقت اپنی جگہ مقدم ہے کیونکہ اس کے بغیر کچھ کرنا  یا اپنی بعض ضررورتوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن کیا کبھی سوچا ہے آپ نے کہ  پیسہ جب ایجاد نہیں ہوا تھا تو دنیا میں لوگ کسی قسم کا نظام استعمال کرتے تھے۔پیسہ کب سے ہماری زندگی کا حصہ بنا؟اس کی دریافت کس تہذیب کے سر جاتی ہے اور کیا آپ نے  یہ روایت سنی ہے کہ فلاں شخص قارون جتنا امیر ہے؟


 لیدیا کی سلطنت اناطولیہ کی اہم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے،اس تہذیب کی عمر تو اتنی طویل نہیں ہے لیکن انسانی تاریخ  پر اس نے کافی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ قدرتی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے یہ تہذیب کافی خوشحال تھی۔ اس سلطنت کے رقبے میں چھپے سنگ مرمر کے ذخائر اور اطراف میں موجود گھنے جنگلات یہاں کی آبادی کو سکون و راحت بخشتے تھے۔ گیدیز اور  دریائے مندریس کی بدولت یہاں پانی کی بھی کمی نہیں تھی۔ اس سلطنت کا صدر مقام دور حاضر میں ضلع منیسا کے قصبے سارت   سے ملحقہ ساردیس میں واقع تھا۔ ساردیس کے عین وسط سے  سارت نامی ندی بہتی ہے جس کے پانی میں سونے اور چاندی کے ذرات پائے جاتے تھے۔لیدیا کے معنی طلائی شہر کے ہیں۔

 


 

ابتدائی سکے

 

سلطنت کی قیمتی  ترین دھات الیکٹروم تھی  جسے   بوریوں میں بھر  کریا   بھٹی  میں تپا کو استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد کے ادوار میں  لیدیا کے حکمراں الیاتیس  نے  الیکٹروم میں چاندی اور سونے کی آمیزش کرتے ہوئے سکوں کی شکل دینا شروع کر دی ۔ابتدائی سکوں پر  ان کی قدر و قیمت کے حساب سے مختلف  شبیہات یا لیدیا کے ناموں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس طریقہ کار نے لیدیائی تہذیب  کی خوشحالی میں مزید اضافہ کیا  جس سے یہ سلطنت علاقے کی  طاقتور ترین تہذیب بن  گئی۔ سکوں کی ایجاد کے بعد  اناطولیہ یا ایشیائے کوچک کی حدود عبور کرتے ہوئے بحیرہ روم کی ہمسایہ ریاستوں تک  سکوں کا رواج پھیل گیا البتہ الیکٹروم ہمیشہ اسی مقدار میں سونے یا چاندی کی آمیزش قبول نہیں کر پاتا تھا۔


 شاہ الیاتیس کے بیٹے کروئسوس یا عرف عام میں قارون  کی تخت نشینی کے بعد  الیکٹروم سے آمیزہ سکوں کی تیاری ختم  کرتےہوئے مقرر کردہ وزن کے حساب سے سونے اور چاندی کے الگ الگ سکے بنائے جانے لگے۔یہ طریقہ کار لیدیا  کی سلطنت اور سکوں کی ایجاد کے حوالے سے ایک نیارخ اختیار کر گیا۔ ان سکے چھوٹے اور نصف گرام وزنی ہوا کرتے تھے جن پر مختلف اشکال کندہ ہوتی تھین۔اس طرح سے پیسے میں لین دین کا رواج  شروع ہوا۔ تاریخی محقق ہیری دوت کا  کہنا ہےکہ تاریخ کے پہلے طلائی و چاندی کے سکے لیدیائی قوم نے ایجاد کیے تھے  جو کہ ان کی خوشحالی کا بھی سبب بنا۔یہی وجہ ہے کہ قارون جتنا امیر سے متعلق محاورہ یہاں سے وارد ہوا۔
 پیسے کی ایجاد سے قبل انسان آپس میں لین دین کس طرح کرتے تھے؟ ان کی جائداد  کس طرح سے   متعین کی جاتی تھی یا وہ پیسے کے بجائے کس چیز کا استعمال کرتے تھے۔  انسان اس لین دین کے لیے  سمندری سیپیوں،جانوروں،ان کی کھالوں،گندم اور جو کا استعمال کرتا تھا لیکن  ان کے بھاری بھر کم وزن اور مقدار میں ناپ تول کے فقدان کے باعث انسان نے پھر معدنی چیزوں کا استعمال شروع کیا۔ اس حوالے سے ماہرین  اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی واضح علامت موجود نہیں ہے کہ پیسے کی ایجاد کا سبب کیا تھا البتہ ان کا کہنا ہے کہ  تجارت اور خرید و فروخت میں آسانی کےلیے بھی انہوں نے پیسہ ایجاد  نہیں ہوا بلکہ اس کی تخلیق فوجیوں اور سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے عمل میں لائی گئی بلکل اسی طرح جس  طرح سے سمیر قوم نے زراعت سے  حاصل کر دہ خوشحالی اور اجرتی ملازمین کے حقوق کے تحفظ کا طریقہ اپنایا تھا کیونکہ اس دور میں بیشتر ریاستیں اجرتی فوجیوں کی خدمات حاصل کرتی تھیں جن کی صداقت اور وفاداری کو سونے یا چاندی  سے خریدا جاتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ  یہ سکے بیک وقت ایک قسم کی خبر رسانی کا بھی ذریعے ہوتے تھے،مواصلاتی نظام کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس دور میں   سلطنتوں کے دور حکومت، ان کے حکمرانوں کی مدت اقتدار،نئی تعمیرات، عبادت خانوں حتی  زلف تراشی کے نت نئے اندازوں  کو ان سکوں کی بدولت مستقبل کی نسلوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ ان سکوں کی بدولت دو رجدید میں ہم ان ادوار اور تہذیبوں، مٹی ہوئی یادگاروں اور تباہیوں  سے  متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ان سکوں کی تیاری میں استعمال دھاتوں کا اس  دور کی تہذیب کی خوشحالی اور اس کی اجارہ داری  سے بھی موازنہ کیا جاتا تھا ۔ ان سکوں کی بدولت ان تہذیبوں کی فتوحات  اور  شکستوں کا بھی ہمیں علم ہوتا ہے یعنی یہ کہ  تاریخی اعتبار سے یہ سکے ہمارے لیے تحریری وسائل  کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔

 بعض محققین   کے خیال میں پیسے  کی ایجاد کے ساتھ ہی مشہور شاہی شاہراہ کی تعمیر بھی اسی دور کی میراث ہے،پارس شاہی شاہراہ کے نام سے منسوب   اس سڑک کا آغاز لیدیا سلطنت کے صدر مقام ساردیس سے ہوتا  تھا جو کہ موصل اور بغداد سے گزرتی ہوئی سلطنت پارس کے صدر مقام اور پھر وہاں سے پارس و پولس تک  جاتی تھی۔  اناطولیہ کو مغربی سے مشرق تک ملانے والی  اس دو ہزار سات سو کلومیٹر طویل شاہراہ اور پیسے کی ایجاد اس دور  کی تجارتی ترقی کے فروغ میں نمایاں رہی۔ صرف لیدیا کے لیے ہی نہیں بلکہ اس گزر گاہ پر واقع تما م تہذیبوں  کے درمیان اقتصادی، سائنسی،ثقافتی اور فنی حوالے سےایک مواصلاتی ربط پیدا ہوا۔
اناطولیہ  کی ہزار ہا سالہ  زرخیز سر زمین اور جیو پولیٹیک محل وقوع  کی بدولت  یہ خطہ  ثقافتی،فنی،سائنسی ،دینی اور تجارتی لحاظ سے انسانیت کے لیےایک مشعل راہ بنا۔ سکوں کی اس خطے میں پہلی بار ایجاد اور استعمال کرنے  کی وجہ بھی یہی بنی۔ اس ایجاد نے انسانی تاریخ کا رخ  تبدیل کر دیا اور اس نے پیسے سے مختلف رشتے استوار کرنا شروع کر دیئے۔کسی نے  اسے  آسودہ زندگی گزارنے کا ذریعہ بنایا تو کسی نے اسے  اپنی زندگی کی دوسری یا تیسری ترجیح قرار دیا حتی اس سے کنارہ کشی بھی اختیار کی۔نتیجتا، انفرادی و اجتماعی لحاظ سے  پیسے نے ہماری زندگیوں میں اہم کردار ادا کر رکھا ہے،مختلف اقتصادی نظاموں کی ترتیب میں اس کی  اہمیت و افادیت مقدم ہے ،دھاتی پیسہ لیدیا کی ایجاد تھی جس  کے فروغ مین ایک دیگر اناطولیہ کی تہذیب ایون کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ابتدائی سکوں کی ایجاد کے چودہ سو سال بعد چینیوں  نے کاغذی پیسہ ایجاد کیا جبکہ نصف صدی قبل انسان نے کریڈٹ کارڈ ایجاد کرتےہوئے  پیسہ لےجانے کی زحمت  گوارانہ کرنے کی ٹھانی۔ دور حاضر میں  کرپٹو  کرنسی کا رواج چل پڑا ہے ۔ آج سے چھبیس سو سال پہلے جو سکہ ایجاد ہوا اس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اشکال اختیار کیں اور کرنا جاری رکھے ہوئے ہے ،دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس کا حال کیاہوگا البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کی اہمیت اور ضرورت  مقدم رہے گی ۔

 

 


ٹیگز: #سکے , #لیدیا

متعللقہ خبریں