تجزیہ 66

جو بائڈن انتظامیہ کی چین سے متعلق نئی پالیسوں اور نیٹو کی حکمت عملی سے متعلق ایک اہم جائزہ

1613691
تجزیہ 66

عوامی جمہوریہ چین کو اپنے ایک سٹریٹیجک  رقیب  کے طور پر دیکھنے والا امریکہ امریکی بالا دستی  کو چینی محور کے حامل ایک چیلنج سے دو چار ہونے سے بخوبی آگاہ ہے۔  تا ہم  اوباما کے دور میں  بنیادیں ڈالتے ہوئے چین  کے ساتھ توازن قائم کرنے کی خاطر  عمل درآمد کردہ ’’ایشیا پیوٹ‘‘ سٹریٹیجی  کو صحیح معنوں میں کس طرح عملی جامہ پہنائے جانے کے معاملے میں نمایاں سوالیہ نشانات پائے جاتے ہیں۔اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ  بائڈن انتظامیہ چین کو محدود اور توازن میں رکھنے کے ہدف پر برقرار ہے تا ہم ، اس حکمت عملی میں بعض تبدیلیاں آئیں گی۔ بلنکن اور آسٹن  کا جاپان اور جنوبی کوریا جبکہ آسٹن کا دورہ ہندوستان  چین سے متعلق اقدامات کے نمایاں محور کو تشکیل دیتا ہے۔  پہلا ہدف  روایتی اتحاد روابط کو تقویت دینے کے لیے ایک  مضبوط سیاسی  تعلق کی نشاط ہے۔ بعد میں  چین کے جیوپولیٹیکل  توسیع عمل کے برخلاف  اس جمہوری و سیاسی دائرے کو اقتصادی و عسکری  میدان میں بھی  مضبوطی  دینا ہے۔

سیتا سیکیورٹی تحقیقات ڈائریکٹر مصنف پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

بلنکن  کے جاپان میں صرف کردہ  الفاظ،  بائڈن انتظامیہ کی چین کے نہ صرف  اقتصادی و عسکری  خطرہ ہونے بلکہ بیک وقت معمول کے مرکز   کے مطابق لیبرل  نظام کے لیے بھی ایک خطرہ تشکیل دینے  کی سوچ کا مظہر ہیں۔ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور قوانین کی بالا دستی  جیسے شعبہ جات میں چین کو مزید ہدف بنانے والی نئی  امریکی انتظامیہ اس  معاملے کے  عالمی نظام کے مستقبل   کے لیے کشمکش پیدا  کرنے  سے  بھی آگا ہ ہے۔

چین کے  خلاف ایک عالمی محاذ قائم کرنے کے درپے بائڈن انتظامیہ  کا عالمی نظام میں تبدیلیوں کے اعتبار سے ایک دوسرا  ہدف  روایتی اتحادی نظام  کی بحالی  کرنے کی شکل میں مغربی بازو  میں ایک نئے جیو پولیٹیکل ماحول کو قائم کرنا ہے۔  اس  نکتے پر  ٹرانس اٹلانٹک  روابط میں ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں  پیش آنے والے  نقصانات کا ازالہ کرنا اور پڑنے والی دراڑوں  کو گہرائی کے حامل جیوپولیٹیکل   خطوط  کی ماہیت اختیار کرنے سے قبل ہی ان کی سرعت سے مرمت کرنا  بائڈن انتطامیہ کی اولیت کے معاملات میں شامل ہے۔

بلنکن  کے نیٹو کے وزرا خارجہ کے اجلاس  کے دائرہ کار میں دورہ برسلز میں  یہ مؤقف کہیں زیادہ نمایاں  طور پر ظہور پذیر ہوا ہے۔ بائڈن انتظامیہ  کے یہاں پر دو اہداف پائے جاتے ہیں۔ پہلا ہدف ٹرانس اٹلانٹک جیوپولیٹکل  بلاک کے اہم ترین  ستون کی حیثیت کے حامل نیٹو  کے حکمت ِ عملی مشن کی دوبارہ سے  تشریح کرنا ہے۔  ٹرمپ دور میں  دراڑیں پڑنے کی آوازوں کو کہیں زیادہ بلند ہونے اور میثاق کے اندر  تفریق بازی  کے کہیں زیادہ نمایاں ہونے والا نیٹو   امریکی انتظامیہ کے لیے اولیت کے حامل  بحالی کا تقاضا پائے جانے والے   ایک اتحادی نظام  کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

میثاق کے محض ایک دفاعی و سیکیورٹی تنظیم نہ ہونے پر زور دینے والے بلنکن نے برسلز میں  سیاسی پہلو کے  کہیں زیادہ نمایاں ہونے والے نیٹو کی شناخت کو پیش پیش رکھا۔ اس سے بھی اہم نیٹو  کا چین کے بارے میں مؤقف  ٹرانس اٹلانٹک  جیوپولیٹیکل محور پر  سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے معاملات میں سر فہرست ہے۔ بطور تنظیم ’چین‘ کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے مرحلے پر ہونے کا ذکر کرنے والے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے   بھی اب چین کے  حوالے سے ’خطرے‘ کے نظریے کو اکثر و بیشتر زیرِ  لب لانا شروع کر دیا ہے۔  در اصل یورپی یونین کے نمائندہ اعلی جوزف  بوریل   کی  بلنکن سے ملاقات میں اس مؤقف کے دہرائے جانے  والے ایک معاملہ بننے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

چین کے ساتھ تعاون کے مواقع پائے جانے   سے آگاہ یورپ بیک وقت اس عمل کے ایک حکمت عملی کشمکش کی ماہیت اختیار کرنے  سے  بھی بخوبی واقف ہے۔ لہذا بائڈن کے لیے نیٹو، روس اور چین کے برخلاف قائم کیے جانے والے نئے ٹرانس اٹلانٹک  مؤقف کے سخت ترین  ستون کی ماہیت رکھتا ہے۔

بائڈن انتظامیہ کا دوسرا ہدف ٹرانس اٹلانٹک محور کے حامل مغربی جیوپولیٹیکل محاذ   کے پاش پاش ہونے والے ڈھانچے کی مرمت کرنا ہے۔ نیٹو کے وزرا اجلاس میں شریک بلنکن   کے علاوہ بائڈن کا یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ویبینار  کانفرس  کے ذریعے شرکت کرتے ہوئے چین  اور روس  کے معاملے پر توجہ مبذول کرانا یورپ کو  انتباہ دینے کی  حیثیت رکھتا ہے۔

بلنکن نے یورپ کو امریکہ کی چین کے ساتھ جدوجہد کے معاملے میں ’’ہمارے ساتھ ہو یا پھر ان کے ساتھ‘‘  جیسی ترجیح  پیش نہیں کی تو بھی  ان کا دورہ یورپ چین کے معاملے میں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے  پر مجبور کرنے کا انداز ا ہوتا ہے۔  یورپی یونین کے ان ایام میں  عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہونے والی نئی سٹریٹیجک آٹونومی پالیسیوں کو وضع کرنے والے خدشات میں سے ایک چین ہی ہے۔ اس بنا پر چین کے  برخلاف   ایک اجتماعی حکمت عملی کی تشکیل کے زیر مقصد امریکی قیادت میں  ہاں میں ہاں ملانے والا یورپ  بھی سامنے آ سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں